سندھ میں ٹڈیوں کا حملہ: ٹڈی دل افریقہ سے پاکستان کیسے پہنچا؟

صحرائی ٹیلوں کے درمیان کپاس کی فصل ابھی ڈیڑھ فٹ تک مشکل سے پہنچی ہے۔ نصف درجن کے قریب کسان جن میں بچے اور بڑے سب شامل ہیں ہاتھوں میں تھال اور پلاسٹک کی بوتلیں لیے انھیں بجا رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ فصل پر بیٹھی ہزاروں ٹڈیاں کسی طریقے سے اڑ جائیں۔

سندھ کے ضلع خیرپور کے صحرائی علاقے نارا میں اس ٹڈی دل کو آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا لیکن ان پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹڈیاں خیرپور میں نارا، سکھر میں صالح پٹ، سانگھڑ، عمرکوٹ اور تھر کے صحرائی علاقوں تک پہنچ چکی ہیں۔

نارا میں ساؤن گیس فیلڈ کے سامنے واقع جھم گاؤں کے رہائشی غلام قادر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی فصل میں ہزاروں کی تعداد میں ٹڈیاں گھس آئی تھیں جس کے بعد انھوں نے آگ لگا کر دھواں کیا اور دیگر کسانوں کی مدد سے ان ٹڈیوں کو اپنی فصل سے دھکیلا کیونکہ ’یہ جہاں بیٹھتی ہیں وہاں کھانا شروع کردیتی ہیں۔‘

جھم سے صرف چند کلومیٹر دور میٹڑھی کے مقام پر فضائی سپرے کیا گیا لیکن یہ عمل کارگر ثابت نہیں ہو سکا اور یہاں کسان تھال اور بوتلیں بجا کر جبکہ کچھ دھویں کے ذریعے ان ٹڈیوں کو بھگانے کی کوشش میں مصروف نظر آئے۔

زمیندار بخت علی آرا دین کا کہنا ہے کہ ’اتنی بڑی تعداد میں ٹڈیاں آئی ہیں کہ ہمارا دماغ کام نہیں کر رہا۔ دو روز قبل آدھا گھنٹہ فضائی سپرے کیا گیا تھا مگر اس کے بعد دوبارہ ٹڈیاں ہجوم کی صورت میں آ گئی ہیں جس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ اس سپرے کا اثر نہیں ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ یہ ہماری فصل ہی ختم کر دیں گی۔ ہماری تو گزر بسر اسی پر ہی ہے۔‘

دنیا میں 30 ممالک ٹڈیوں سے متاثر ہیں اور انھیں تین خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے

ٹڈیاں آئیں کہاں سے؟

اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق یہ ٹڈیاں ایتھوپیا، صومالیہ، یمن، سعودی عرب اور پھر عمان سے ہوتی ہوئی ایران میں داخل ہوئیں اور وہاں سے بلوچستان کے ضلع چاغی اور پھر صوبہ سندھ پہنچی ہیں۔

تحفظِ نباتات کے محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فخرالزمان کا کہنا ہے کہ یہ ٹڈیاں ایک سیزن سے دوسرے سیزن میں داخل ہوئی ہیں۔ جس طرح ٹھنڈے ملکوں کے آبی پرندے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ’پاکستان میں صحرائی ٹڈی کے افزائش نسل کے دو موسم ہیں۔ ایک موسم سرما۔ جو فروری سے جون تک ہوتا ہے اور اس کا علاقہ بلوچستان میں ہے جبکہ دوسرا جون سے ستمبر تک ہے اس کا علاقہ بدین سے لے کر پنجاب میں بہاول نگر تک پھیلا ہوا ہے۔ جب ایک سیزن ختم ہوجاتا ہے تو یہ ٹڈیاں دوسرے سیزن میں منتقل ہو جاتی ہیں۔‘

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں 30 ممالک ٹڈیوں سے متاثر ہیں اور انھیں تین خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان میں ایک مغربی خطہ ہے جس میں افریقی ممالک موریطانیہ، سوڈان، ایتھوپیا اور صومالیہ وغیرہ آتے ہیں، دوسرا وسطی خطہ ہے اس میں مصر، یمن اور سعودی عرب وغیرہ شامل ہیں جبکہ تیسرا مشرقی خطہ ہے جس میں پاکستان، ایران، انڈیا اور افغانستان ہیں۔

تاہم فخرالزمان کا کہنا ہے کہ یہ ٹڈیاں ایک خطے سے دوسرے خطے تک بھی سفر کرتی ہیں۔

افزائش نسل کا سازگار ماحول

پلانٹ پروٹکشن محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فخرالزمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹڈیوں کی افزائش نسل کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔

ان کے مطابق مادہ ٹڈی ریت میں انڈے دیتی ہے۔ اس ریت میں نمی ہونی چاہیے اور نمی اس وقت ہوتی ہے جب بارشیں ہوں اور آس پاس میں ہریالی دستیاب اس صورتحال میں ان کی افزائش نسل ہوتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر یہ سبز، گلابی اور زرد رنگ کی ہوتی ہیں اور جب بالغ ہوجاتی ہیں تو ان کا رنگ براؤن ہوجاتا ہے جس کے بعد ان کا ملاپ ہوتا ہے اور مادہ بچے دیتی ہے۔ جن کی تعداد ایک وقت پر 80 ہوتی ہے۔ ایک مادہ تین بار یہ انڈے دیتے ہیں جس کے بعد فطری طور پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔‘

سندھ کے ضلع خیرپور کے صحرائی علاقے نارا میں اس ٹڈی دل کو آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے

پرواز اور رفتار
ٹڈیاں اڑنے والے کیڑوں میں سب سے تیز رفتار ہوتی ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق یہ روزانہ 100 سے 200 کلومیٹر کا سفر کر سکتی ہیں اور ہوا کے رخ کے ساتھ اڑان بھرتی ہیں۔ اگر ہوا کی رفتار تیز ہو تو ان کی رفتار بھی بڑھ جاتی ہے۔ ان کی پرواز سطح سمندر سے 200 میٹر کی بلندی پر ہوتی ہے جبکہ آسمان پر ٹڈی دل کا پھیلاؤ ایک کلومیٹر سے لے کر کئی کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔

فخرالزمان کا کہنا ہے کہ جو بالغ ٹڈیاں ہیں وہ انڈے دیتی ہیں اور صحرا میں قیام کرتی ہیں اور جو نابالغ ہیں وہ مسلسل پرواز کرتی ہیں۔ رات کو یہ درختوں پر بیٹھتی ہیں اور وہاں سے کھا پی کر آگے نکل جاتی ہیں۔

فصلوں کو نقصان
ٹڈیاں صحرائی علاقوں میں فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جہاں سال میں کبھی کبھار بارشیں ہوتی ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق اگر ٹڈی دل فصلوں پر حملہ آور ہو جائے تو ان صحرائی علاقوں میں قحط سالی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر فخرالزمان کے مطابق ’ان ٹڈیوں کے پیچھے دوڑنا پڑتا ہے۔ شام کو سورج غرب ہونے کے بعد یہ پڑاؤ ڈالتی ہیں اور صبح سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی سفر شروع کر دیتی ہیں۔ وہاں جا کر جی پی ایس سسٹم سے کوارڈینیٹس لیتے ہیں اور صبح سویرے جہاز یا گاڑی سے سپرے کیا جاتا ہے ، اس وقت یہ درختوں پر بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں جس سے سپرے کا اثر زیادہ ہوتا ہے ورنہ اڑتی ہوئی ٹڈیوں کو نشانہ بنانا ممکن نہیں ہوتا۔‘

صحرائی علاقوں میں یا ان کے آس پاس بارشیں ہو گئیں تو ان ٹڈیوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو سکتا ہے

ان کے مطابق ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے سپرے میں ’ایسی کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں جن سے ممالیہ جانوروں اور انسانی صحت کو کم از کم نقصان پہنچے۔ سپرے سے قبل ہم اعلان بھی کر دیتے ہیں کہ یہاں لوگ نہ آئیں اور جانور نہ لائے جائیں۔‘

تاہم تحفظِ نباتات کے محکمے کے دعوے کے برعکس سپرے کے وقت علاقے میں مال مویشی اور انسانی نقل و حرکت معمول کے مطابق دیکھی جا سکتی تھی۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان اور یمن میں فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کے امکانات موجود ہیں اس لیے جلد از جلد سروے کرنے اور انھیں قابو کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ اس ٹڈی دل کو ہر صورت میں تین ماہ میں قابو کرنا ہو گا اور اس حوالے سے وفاق کی مدد کی بھی ضرورت ہے تاکہ فضائی سپرے کیا جا سکے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں مون سون سیزن کا آغاز ہو چکا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر صحرائی علاقوں میں یا ان کے آس پاس بارشیں ہو گئیں تو ان ٹڈیوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہو جائے گا۔

جواب دیجئے