قدرتی طریقہءِ کاشتکاری کے اصول کیسے دریافت ہوئے؟

جیسا کہ ہم پچھلے مضمون میں بیان کر چکے ہیں کہ آصف شریف نے 1972 میں کاشتکاری کا آغاز کیا اور سن 2007 تک وہ ایک ترقی پسند کاشتکار کی طرح بھر پور کھادیں اورزرعی زہریں استعمال کر کے ریکارڈ پیداوار حاصل کرتے رہے۔ لیکن سن 2007 میں آصف شریف کے ایک برازیلی دوست نے انہیں برازیل آنے کی دعوت دی۔ یہ دعوت آصف شریف کی زندگی میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔

برازیل میں آصف شریف کا یہ دوست بلبو جونئیر دنیا میں گنے کا سب سے بڑا کاشتکار ہے۔ بلبو جونئیر اڑھائی لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کرتا ہے لیکن وہ ایک دانہ بھی کیمیائی کھاد کا نہیں ڈالتا اور نہ ہی کسی قسم کی زرعی زہریں استعمال کرتا ہے۔ وہ اس گنے سے آرگینک چینی پیدا کر کے دنیا کے 60 سے زیادہ ملکوں میں Nativeکے نام سے فروخت کرتا ہے۔

بلبو جونئیر کو آکاس بیل نامی ایک جڑی بوٹی نے پریشان کر رکھا تھا۔ آکاس بیل دراصل ایک پیلے رنگ کی دھاگہ نما جڑی بوٹی ہے جو گنوں کے اوپر چڑھ کر انہیں دھاگوں کی طرح ایک دوسرے سے باندھ دیتی تھی۔ آکاس بیل کی وجہ سے انہیں گنے کی مشینی کٹائی میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔
ظاہر ہے بلبو جونئیر سپرے تو کرتے نہیں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی مشین تیار کر لی جائے جس کی مدد سے اس جڑی بوٹی کو کنٹرول کیا جا سکے۔

زرعی مشینیں ڈیزائن کرنا آصف شریف کا مشغلہ ہے اور بلبو، آصف شریف کے اس شوق اور فنی مہارت سے واقف تھا۔ لہذا اس نے آصف شریف سے درخواست کی کہ وہ کوئی ایسی مشین بنانے میں ان کی مدد کرے جس سے آکاس بیل کو کنٹرول کیا جا سکے۔

لہذا بلبو جونئیر کی دعوت پر سن 2007 میں آصف شریف برازیل چلے گئے۔ جہاں وہ 3 ہفتے رہے اور اس دوران انہوں نے ایک مشین ڈیزائن کی جو آج بھی کامیابی سے آکاس بیل کو کنٹرول کر رہی ہے۔

جب یہ منصوبہ ختم ہوا تو آصف شریف نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایمازان کا جنگل دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایمازان دراصل دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے جو کروڑوں سال سے کرہ ارض پر موجود ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والی 60 فی صد آکسیجن اکیلا ایمازان پیدا کرتا ہے اور اسی نسبت سے اس جنگل کو دنیا کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسانوں سمیت ہر ذی روح کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے جسے وہ سانس کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔

ایمازان کا جنگل، پاکستان کے کل رقبے سے 7 گنا بڑا ہے جو برازیل سمیت دنیا کے 9 ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ جنگل ساڑھے پانچ کروڑ سال پرانا ہے۔

اسی جنگل کے اندر سے دنیا کا سب سے بڑا دریا بھی گزرتا ہے جسے اسی نسبت سے ایمازان دریا کا نام دیا گیا ہے۔

آصف شریف بتاتے ہیں کہ وہ دریا کے راستے سے، کشتی میں بیٹھ کر ایمازان کے جنگل میں داخل ہوئے۔ بقول آصف شریف جب میں کشتی پر بیٹھا ہوا دریا میں جنگل کے ساتھ ساتھ جارہا تھا تو فطرت کی کرشمہ سازیوں نے مجھ اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ یہ جنگل اس قدر سر سبز و شاداب اور زندہ و جاوید تھا کہ ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیرہ کئے جا رہا تھا۔

میں نے سوچا کہ اللہ تعالی نے یہ کیسا نظام بنا رکھا ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال سے یہ جنگل اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ اس جنگل میں نہ تو کوئی ہل چلاتا ہے۔ نہ یہاں کسی یوریا ڈے اپے پی کی کوئی کمی ہوئی ہے۔ نہ ہی کیڑے مکوڑے اس جنگل کا کچھ بگاڑ سکے ہیں اور نہ ہی اسے کسی بیماری نے تباہ کیا ہے۔ کروڑوں سالوں سے یہ جنگل یہاں موجود ہے اور کسی بھی طرح کی کھادیں یہاں ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑی اور نہ ہی زرعی زہریں سپرے کرنا پڑی ہیں۔ آخرایمازان کے اتنے بڑے جنگل میں نائٹروجن یا فاسفورس کی کمی کیوں نہیں ہوتی۔ اور اسی طرح اس جنگل پر یہ نام نہاد کیڑے مکوڑے اور بیماریاں حملہ کیوں نہیں کرتیں؟

آصف شریف کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ آخر ہم اپنی زراعت میں ایسا کیا کر بیٹھے ہیں کہ ہمیں کھادیں اور زرعی زہریں استعمال کرنے جیسی مصیبتیں پڑی ہوئی ہیں؟

آصف شریف نے رات اسی جنگل میں گزاری۔ وہاں سیاحوں کے رات گزارنے کے لئے چھوٹی چھوٹی محفوظ چھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں جہاں شوق رکھنے والے لوگ رات بسر کر سکتے ہیں۔

بقول آصف شریف، میں رات کے پچھلے پہر تک اپنی جھونپڑی میں بیٹھا اس جنگل کے ماحول اور وہاں سے آنے والی آوازوں کو محسوس کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ ہمیں ان باتوں کی نشاندہی کرنی چاہئے جو ہم قدرتی نظام کاشتکاری کے خلاف کر رہے ہیں۔ یعنی دنیا کا سب سے بڑا کاشتکار تو اللہ تعالی کا ذات ہے۔ جو کروڑوں اربوں ایکڑ پر جنگلوں کی صورت میں یا چراگاہوں وغیرہ کی صورت میں ارب ہا سال سے کاشتکاری کر رہا ہے اور بغیر کسی مسئلے کے کر رہا ہے۔ اللہ رب العزت جو کاشتکاری کر رہا ہے وہ ایک خود کار نظام کے تحت ہو رہی ہے۔ قدرت، اپنی کاشتکاری میں توہل چلاتی ہے، نہ کیمیائی کھاد ڈالتی ہے اور نہ ہی کوئی زہر سپرے کرتی ہیں۔ آخر ہم ان ساری مصیبتوں میں کیسے اور کیوں گرفتار ہو گئے۔

بقول آصف شریف، میں یہی باتیں سوچتا سوچتا سو گیا۔ صبح اٹھا تو میں نے جنگل کی سیر کا ارادہ کیا۔

ناشتے کے بعد چند محافظ مجھے جنگل کی چہل قدمی کے لئے لے گئے۔

قدرتی کاشت کاری کا پہلا اصول

جنگل میں چہل قدمی کرتے ہوئے جو پہلی بات آصف شریف پر منکشف ہوئی وہ یہ تھی کہ جہاں پانی ہے وہاں سبزہ نہیں ہے اور جہاں سبزہ ہے وہاں پانی نہیں ہے۔

دراصل ایمازان جنگل کی سطح ڈھلوان نما ہے۔ ڈھلوان کی اونچی سظح پر درخت اور نچلی سظح پر دریا بہتا ہے۔ جنگل میں جب بارش ہوتی ہے، تو جتنا پانی زمین جذب کر سکتی ہے وہ کر لیتی ہے اور باقی پانی ڈھلوان کی اونچی سطح سے بہہ کر نیچی سطح یعنی دریا میں چلا جاتا ہے۔ جنگل میں کہیں بھی آصف شریف کو کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آئی جہاں سبزہ ہو اور وہاں پانی بھی کھڑا ہو۔ ہاں اگر کسی جگہ پر تھوڑا بہت پانی کھڑا تھا تو یقیناََ وہاں سبزہ نہیں تھا۔

آصف شریف نے اپنے اس مشاہدے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اللہ تعالی نے اونچی جگہیں بنائیں سبزے پیدا کرنے کے لئے اور نشیبی یعنی گہری جگہیں بنائیں پانی کے لئے۔

اب آپ نیچے دی گئی تصویر دیکھئے!

گندم کی تصویر سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد کی ہے۔

اوپر دی گئی تصویر میں آپ دائیں جانب ایمازان کا جنگل اور اس جنگل میں سے گزرتا ہوا دریا دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ بائیں جانب گندم کے کھیت کی تصویر دی گئی ہے جو بلند پٹڑیوں پر کاشت کی ہوئی ہے۔ یعنی کھیت کے اندر ہم نے ویسی ہی اونچ نیج پیدا کر نے کی کوشش کی ہے جیسا کہ ایمازان کے جنگل میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قدرتی نظام کاشتکاری کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہم فصل ہمیشہ پٹڑیوں پر کاشت کریں گے اور پٹڑیوں کے ارد گرد کھیلیاں ہوں گی جہاں سے پانی گزرے گا۔ یعنی جہاں سبزہ ہو گا وہاں پانی کھڑا نہیں ہو گا اور جہاں پانی کھڑا ہو گا وہاں سبزہ نہیں ہو گا۔

قدرتی کاشتکاری کا دوسرا اصول

جنگل میں چہل قدمی کرتے ہوئے آصف شریف نے ایک انچ بھی زمین ایسی نہیں دیکھی جو ننگی ہو۔ یعنی ساری کی ساری زمین درختوں کے پتوں، ٹہنیوں اور گھاس پھوس سے ڈھکی ہوئی تھی۔ جب آصف شریف زمین پر قدم رکھتے تو ان کا پاؤں چار پانچ انچ تک زمین میں دھنس جاتا۔ معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پتوں اور گھاس پھوس کی کوئی 6 انچ کی تہہ چڑھی ہوئی ہے۔

اس دوسرے مشاہدے سے یہ اصول سامنے آیا کہ ہم نے اپنے کھیتوں کی زمینوں کو ننگا نہیں رکھنا۔ بلکہ انہیں کسی نہ کسی طرح فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانک کر رکھنا ہے۔

اگر آپ نیچے دی ہوئی تصویر کو دیکھیں تو اس میں دائیں طرف جنگل کے فرش کی تصویر ہے جہاں پتوں اور فصلوں کی باقیات وغیرہ نے زمین کو ڈھانپ رکھا ہے جبکہ بائیں طرف گندم کی فصل کاشت کی ہوئی ہے جہاں زمین کو چاول کی باقیات نے ڈھانکا ہوا ہے۔ اس کھیت میں دھان کی کٹائی کے بعد نہ تو زمین میں ہل چلایا گیا ہے اور نہ ہی دھان کی باقیات کو جلایا گیا ہے۔ بلکہ کٹائی کے فوراََ بعد بغیر ہل چلائے گندم کاشت کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس کھیت میں ایک سال سے ہل نہیں چلایا گیا۔ ہم اپنی زمینوں کو فصلوں کی باقیات وغیرہ سے کیسے ڈھانک سکتے ہیں؟ اس پر آئندہ مضامین میں تفصیلی بات ہو گی۔

قدرتی کاشتکاری کا تیسرا اصول

جنگل میں تیسرا مشاہدہ یہ ہوا کہ زمین کے ساتھ وہاں کسی طرح کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ یعنی نہ تو جنگل میں کوئی ہل چلاتا ہے اور نہ ہی وہاں زمین کو الٹا پلٹا جاتا ہے۔

زمین میں بغیر ہل چلائے بغیر مونگ کی فصل کاشت کی گئی ہے۔ یہ تصویر سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد کی ہے

لہذا یہاں سے تیسرا اصول اخذ کیا گیا کہ ہم نے اپنے کھیتوں میں ہل نہیں چلانا۔ بلکہ بغیر ہل چلائے ہم نے بیج کاشت کرنے ہیں۔ البتہ جن پٹڑیوں کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں انہیں ہم ایک ہی مر تبہ بنائیں گے۔ اور پھر ان مستقل پٹڑیوں پر بغیرہل چلائے فصلیں کاشت کی جایا کریں گی۔ ہل چلائے بغیر فصلوں کی کاشت کیسے ممکن ہے؟ اسی سلسلے کے اگلے مضامین میں اس پر سیر حاصل بات کی جائے گی۔

قدرتی کاشتکاری کا چوتھا اصول

جنگل میں چوتھی بات یہ دیکھی گئی کہ وہاں ہر طرح کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ اگر کسی جگہ پر پیپل کا درخت لگا ہوا ہے تو کئی ایکڑ پر پیپل کے ہی درخت لگے ہوئے ہوں جیسا کہ ہمارے ہاں کے کھیتوں میں ہوتا ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس اگر کہیں پیپل کا درخت لگا ہوا ہے تو اس کے دائیں جانب کوئی بوڑھ کا درخت ہے اور بائیں جانب کوئی شیشم کا درخت ہے۔

آصف شریف نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمیں بھی اس طرح کاشتکاری نہیں کرنی چاہئے کہ اگر ہمارے پاس ایک ایکڑ زمین ہے تو ہم وہاں صرف کپاس ہی لگائیں یا صرف گندم ہی لگائیں بلکہ ہمیں ایک سے زیادہ فصلیں ایک ہی وقت میں کاشت کرنی چاہئیں۔

اس کھیت میں گندم 24 انچ کے بیڈز یا پٹڑیوں پر 3 لائنوں پر لگائی گئی ہے اور پٹڑیوں کی سائیڈ وں پر گنا لگایا لگایا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ سلطان احمد بھٹی فارم حافظ آباد

ایک سے زیادہ فصلیں اکٹھی لگانے کو انٹر کراپنگ یا مخلوط کاشت بھی کہتے ہیں۔ لیکن ہم انٹر کراپنگ نہیں بلکہ پرما کلچر کی بات کر رہے ہیں۔ پرما کلچر کیا ہے؟ اس پر آنے والے مضامین میں روشنی ڈالی جائے گی۔

برازیل سے واپس آنے کے بعد آصف شریف نے اپنی زمینوں پر ان چاروں اصولوں کو آزمانے کے لئے تجربات شروع کر دئیے۔

آصف شریف کا کہنا ہے کہ اگر ہم پہلے 3 اصولوں پر ہی عمل کر لیں تو نہ ہمیں کسی طرح کی کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے، نہ ہی فصل پر حشرات حملہ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی بیماری آتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری پیداوار بھی کم نہیں ہوتی۔

اگلے مضامین میں ہم آپ کو تفصیل سے بتائیں گے کہ ان تینوں اصولوں کے پیچھے آخر کونسی حکمت پوشیدہ ہے۔ اور ان اصولوں کے برخلاف کی جانے والی کاشتکاری نے کس طرح ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے کہ ہمارے پاس کھادیں اور زہریں استعمال کرنے کے علاوہ بظاہر کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

قدرتی کاشتکاری پر اگلے مضامین پڑھنے کے لئے ایگری اخبار سے جڑے رہئے۔

تحریر

ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد

یہ مضمون لکھنے کے لئے محترم آصف شریف کے افکارو تجربات سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔

جواب دیجئے