انگور کی کاشت

انگورکا حیاتیاتی تام Vitis vinifera ہے ۔یہ سخت سرد یا سخت گرم اور مرطوب آب و ہوا والے علاقہ جات کے علاوہ دنیا کے تمام حصوں میں کاشت ہوتا ہے۔ یعنی سطح سمندر سے لے کر 10,000 فٹ تک کی بلندی تک اگایا جا سکتا ہے لیکن پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقہ جات تقریباً 6000 فٹ کی بلندی تک اس کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 37000 ایکڑ اراضی پر اس کی کاشت ہو رہی ہے اور اس کی پیداوار تقریباً 75000 ٹن سالانہ ہے۔

انگور کی زیادہ تر کاشت پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات کے علاقوں میں کی جاتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام آج کل میدانی علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کی جا رہی ہیں۔

انگور تجارتی پیمانے پر باغ کی صورت میں لگایا جاتا ہے جسے وائن یارڈ (vineyard) کہتے ہیں۔ انگور کی کاشت پودے سے پودا 8فٹ اور قطار سے قطار 10 فٹ فاصلے کے مطابق کی جاتی ہے اس طرح ایک ایکڑ میں پودوں کی تعداد 550 بنتی ہے۔ یہ پودا ایک بیل کی صورت میں اگتا ہے اور اس کا پھل گچھوں کی صورت میں ہوتا ہے۔

آب و ہوا

یہ سرد اور معتدل علاقوں کا پھل ہے اور38°C سے 42°C درجہ حرارت تک بخوبی بڑھتا ہے۔ انگور کی بیل زیادہ اور کم درجہ حرارت کو کافی حد تک برداشت کر لیتی ہے۔ خشک اور نیم گرم درجہ حرارت اس کی مناسب افزائش اور پھل کی نشونما کے لیے بہت ہی مفید ہے۔ موسم گرما کی بارش اس کے پھل پکنے کے لیے ایک شدید خطرہ ہے۔اس وقت زیادہ رطوبت کے باعث پھل پھٹ جاتا ہے اور اس میں پھپھوندی پیدا ہو جاتی ہے اور پھل گلنے سڑنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کے عمدہ اقسام کو زیادہ برسات کے باعث کاشت نہیں کیا جا سکتا اس لیے ایسی اقسام جو مون سون کی بارشوں سے پہلے پک جاتی ہیں ان کی قومی زرعی ترقیاتی مرکز اسلام آباد میںمنتخب کی گئی ہیں اور کاشت کے لیے باغبانوں میں متعارف کرا دی گئی ہیں۔

اقسام

 میدانی علاقوں کی اقسام

                  ۱۔              فلیم سیڈلیس (سرخ)

                  ۲۔              کارڈینال (سرخ ، بیج والا)

                  ۳۔              کنگز روبی (سرخ ، بغیر بیج)

                  ۴۔              پرلیٹ (سبز، بغیر بیج)

                  ۵۔              این۔ اے۔ آر۔ سی بلیک (کالا، بیج والا)

مندرجہ ذیل اقسام عام طور پر صوبہ بلوچستان میں کاشت کی جاتی ہیں ۔

                  ۱۔              سفید کشمش                                 ۲۔              شنڈوخانی

                  ۳۔              سرخ کشمش                                 ۴۔              ہیتھا

                  ۵۔              صاحبی وغیرہ

زمین

 انگور کی کاشت کے لیے مختلف قسم کی زمین مثلاً ہلکی زمین سے لے کر چکنی زمین اور پتھریلی زمین تک موزوں ہے لیکن اچھی نکاس والی ہلکی چکنی زمین انگور کی کاشت کے لیے بے حد موزوں ہے۔ جب انگور کی بیل ریتلی اور کنکریلی زمینوں پر کاشت کی جائے تو اسے دیگر پت جھڑ والے پودوں کی طرح کھاد دینے کے لیے خاص خیال رکھا جائے۔ کنکریلی زمین میں کاشت شدہ انگور کا پھل بہ نسبت چکنی زمینوں کے جلد پک جاتا ہے جو کہ باغبانوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔

افزائش نسل

 انگور کی کاشت عام طور پر بذریعہ قلم کی جاتی ہے کیونکہ بذریعہ تخم اس کی کاشت قطعاً موزوں نہیں ہے۔ پتے جھڑ جانے کے بعد جب پودے خوابیدہ حالت میں ہوں اس کی قلمیں تیار کی جاتی ہیں۔ قلمیں عموماً ایک سال کی شاخوں سے تیار کی جاتی ہیں۔ قلم کی لمبائی تقریباً 9 انچ ہونی چاہیے جس پر 3-4 چشمے ہوں۔ قلم کو تیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ قلم کے نچلے سرے والا کٹ گانٹھ کے قریب ہو تاکہ جڑیں نکلنے میں آسانی رہے۔دسمبر کے آخر میں شاخ تراشی کے بعد کٹی ہوئی ٹہنیوں کی قلمیں تیار کر کے انہیں گیلی ریت میں دبا دیا جاتا ہے جسے کیلسنگ (Callusing) کہتے ہیں۔

وسط فروری میں قلموں کو ریت سے نکال کر پولی ٹیوبز (Polytubes) میں لگا دیا جاتا ہے۔ قلمیں سیدھی کھیت میں بھی لگائی جا سکتی ہیں اور اگر آپ چاہیں تو پہلے نرسری میں اور اس کے بعد کھیت میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ قلم لگانے کے لیے قلم کی 2 یا 3 آنکھیں زمین سے باہر اور باقی حصہ زمین کے اندر دبا دیں۔ قلموں کو ایک سال نرسری میں رکھنے کے بعد اگلے سال فروری میں کھیت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سیدھا کھیت میں قلمیں لگانا مقصود ہو تو 2 یا 3 قلمیں ایک ہی گڑھے میں لگا دیں تا کہ ناکامی کا خدشہ کم ہو۔اگر ساری قلمیں جڑ پکڑ لیں تو ایک قلم چھوڑ کر باقی قلمیں دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہیں۔

پودے لگانا

پودے لگانے سے بیشتر ہل اور سہاگہ چلا کر زمین تیار کر لی جائے۔ پھر 8 فٹ ×10 فٹ کے حساب سے مستعطیل طریقہ کے مطابق داغ بیل کر کے نشان لگائے جائیں۔ پودے کے نشان والی جگہ پر 1.5 ×1.5 فٹ کا گڑھا بنائیں ۔ دس تا پندرہ دنوں تک گڑھا کھلا رکھنے کے بعد اوپر کی ایک فٹ مٹی میں ایک حصہ گوبر کی گلی سڑی کھاد اور ایک حصہ بھل یا آدھ حصہ ریت ملا کر گڑھے کو زمین کی سطح سے تقریباً8 انچ اوپر تک بھر دیں۔ پودے کی جڑوں کی گاچی کے مطابق درمیان میں گڑھا بنائیں اور پودا لگا کر اردرگرد کی مٹی ڈال کر اچھی طرح سے دبائیں اور کیاری بنا کر کھلا پانی دے دیں۔ پودا لگانے کے تین دن بعد تک ہر شام ہلکا پانی لگا دیں۔خشک ہونے پر کیاری میں دراڑیں پڑ جائیں تو ہلکی گوڈی کر دیں۔ جب پودا جڑ پکڑ جائے تو پانی کا وقفہ بڑھا کر 3 تا 4 دن کر دیں۔

آبپاشی اور کھاد کا استعمال

انگور کے پودوں کی آبپاشی کا انحصار اس علاقے کی زمیں اور آب و ہوا پر ہوتا ہے۔اگر موسم گرما میں بارش مناسب وقفوں سے ہوتی رہے تو آبپاشی کی ضرورت نہیں رہتی لیکن گرم موسم میں پھل کی مناسب بڑھوتری ،پیداوار اور کوالٹی کے لیے آبپاشی ضروری ہو جاتی ہے۔

کھادوں کا استعمال زمین کی قسم کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اگر زمین کو گوبر کی کھاد ہر سال دی جائے تو پھر کیمیائی کھادوں کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ عام طور پر150 گرام اےن پی کے (زرخیز) فی پودا وسط مارچ میں استعمال سے پیداوار میں خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔ دانے بننے کے بعد 100 گرام سلفیٹ آف پوٹاش (SOP) فی پودا ڈالنے سے پھل کی کوالٹی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔

نظام تربیت

انگور کی تربیت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ پودوں کی مخصوص شکل گچھوں کو مناسب سہارا دینے ، ان کی پختگی اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ انگور کی تربیت کے کئی طریقے ہیں جن میں خندق والا طریقہ، ہیڈ سسٹم اور کین سسٹم شامل ہیں۔ بلوچستان میں کم بارش کی وجہ سے خندق والا طریقہ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ انگور کے جدید طریقہ کاشت میں بیلوں کو کین سسٹم کے تحت تاروں پر تربیت دی جاتی ہے۔ اس طریقے سے گچھے گلنے سڑنے سے محفوظ رہتے ہیں۔

شاخ تراشی

انگور کی شاخ تراشی ایک اہم عمل ہے اس کے لیے بہت مہارت کی ضرورت ہے۔ شاخ تراشی ہر سال زیادہ پھل اور بیلوں کو تربیتی نظام پر قائم رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ شاخ تراشی ماہ دسمبر کے آخر میں جب پودے خوابیدہ حالت میں ہوں کی جاتی ہے۔ لیکن اگر شاخیں زیادہ بڑھ رہی ہوں اور زمین کو چھونے لگیں تو موسم گرما میں بھی تھوڑی بہت شاخ تراشی کی جا سکتی ہے۔شاخ تراشی کے دوران کئی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے مثلاً اقسام کی پھل دینے کی عادت اور پچھلے سال کی پیداوار کی مقدار وغیرہ ۔ جن اقسام میں پھل شاخوں کے پچھلے حصے پر لگتا ہے شاخ تراشی کرتے وقت ان کو چھوٹا رکھا جا سکتا ہے ۔ اور جن اقسام کا پھل شاخوں کے اوپر والے حصے پر لگتا ہے ان کی لمبائی زیادہ رکھی جاتی ہے تا کہ بیل والے شگوفے زیادہ نہ کٹ جائیںجو بعد میں پیداوار میں کمی کا باعث بنیں شا خ تراشی کے دوران شاخوں کو زخمی ہونے سے بچائیں نیز شاخ تراشی کے آلات تیز ہونے چاہئیں۔

پھل کی چھدرائی

 پودے لگانے کے 4 سال بعد جب پودا پوری پیداوار کو پہنچتا ہے عام طور پر انگور کی بیل میں تقریباً 80 سے زائد گچھے نکل آتے ہیں جن سے اعلٰی کوالٹی کا پھل حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذا گچھوں پر بور آتے وقت ان کی چھدرائی بہت ضروری ہوتی ہے ۔ہر نئی کونپل پر عموماً دو گچھے نکلتے ہیں نیچے والا گچھا چھوڑ دیا جائے اور ہر کونپل کا اوپر والا گچھا کاٹ دیا جائے ۔ اس کے باوجود 30تا 35 گچھے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اب ہر چھوٹا گچھا اور جہاں گچھے زیادہ گھنے ہوں وہاں سے کاٹ لیے جائیںحتاکہ ایک بیل پر زیادہ سے زیادہ تعداد 20 رہ جائے ۔ اس طرح اچھی خوراک لے کر دانہ بڑا بنے گا اور گچھے کا سائز بھی کافی بڑا ہو گاجسے مارکیٹ میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

برداشت

انگور کی بیل عموماً 4-3 سال میں پورا پھل دینا شروع کر دیتی ہے۔ پھل کی برداشت اس وقت کی جائے جب دانے اپنا پورا سائزحاصل کر لیں اور میٹھے ہو جائیں۔ گچھے قینچی سے کاٹنے چاہیے اور ان کو گتے کے کاٹن میں اس طرح رکھیں کہ دانے زخمی نہ ہونے پائیں۔ پیک کرتے وقت خراب دانے نکال دیں ورنہ یہ دوسرے دانوں کو بھی خراب کر دیں گے۔ اس کہ جلد منڈی تک پہنچانا چاہیے ۔ کچھ دنوں کے لیے اس کو کولڈ سٹور میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔

کیڑے اور بیماریاں

دوسرے پودوں کی طرح انگور پر بھی کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے۔ کیڑوں میں بھڑ، سکیل ، بھونڈی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ مِلی بگ بھی انگور کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ بیماریوں میں پھپھوندی ، بوٹ رائٹس پتوں اور کونپلوں کا مرجھاؤ شامل ہیں۔ ان کے خلاف محکمہ کی سفارش کردہ ادویات کا مناسب وقت پر استعمال بہت ضروری ہے۔ پھپھوندی یعنی Downy Mildew کے خلاف ٹاپسن ایم بحساب 2.5 گرام فی لیٹر پانی کا سپرے بے حد موثر ہے۔

جواب دیجئے