ٹماٹر کی ایک بیماری جس کا زیادہ تر غلط علاج کیا جاتا ہے

آج کل ٹماٹر کی فصل پر ایک ایسی بیماری حملہ کر رہی ہے جس کا زیادہ تر کاشتکار غلط علاج کرتے ہیں۔ یہ دراصل بلاسم راٹ کی بیماری ہے جسے آپ نیچے دی گئی تصویر میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ پچھلے سال بھی اس بیماری سے متعلق کاشتکاروں کے کئی سوالات موصول ہوئے تھے لیکن بوجوہ کچھ لکھا نہ جا سکا۔ تو سوچا آج اس پر تفصیلی بات چیت کرتے ہیں۔

سب سے پہلے آپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہئےبلاسم راٹ کا مسئلہ پاکستان میں ٹماٹروں کے علاوہ مرچوں، بینگن، سکواش اور کبھی کبھار تربوز پر بھی دیکھا گیا ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس بیماری کا سب سے زیادہ پرابلم ٹماٹر کی فصل پر ہی ہے۔

رفاقت علی نے نارنگ منڈی لاہور سے یہ تصویر 14 جون 2019 کو شیئر کی ہے

یچے دی گئی تصاویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صوابی، خانیوال، چنیوٹ اور فیصل آبد میں بلاسم راٹ کی بیماری ٹماٹر کی فصل کو کس طرح نقصان پہنچا رہی ہے۔

اس بیماری میں پھل ڈنڈی کے دوسری طرف سے کالا سا ہو کر اندر کو پچک جاتا ہے۔ اگر پھل کے متاثرہ حصے پر کوئی پھپھوندی حملہ آور ہو جائے تو پھرسارے کا سارا پھل گل سڑ جاتا ہے۔ یہ بیماری ٹماٹر کی 70 فیصد پیداوار کو متاثر کر سکتی ہے۔ لہذا یہ بات بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس سے کاشتکار کا کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔

لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ تیز دھوپ کی وجہ سے پھل کے چھلساؤ میں بھی بلاسم راٹ سے ملتی جلتی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن دونوں مسائل کی با آسانی پہچان کی جا سکتی ہے کیونکہ دھوپ کی وجہ سے جھلسے ہوئے ٹماٹر کا رنگ سیاہی مائل کی بجائے سفید سا ہی رہتا ہے اور جلد بھی چمکدارسی نظر آتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ بلاسم راٹ کا مسئلہ ٹماٹر کے علاوہ مرچوں، بینگن، سکواش اور کبھی کبھار تربوز پر بھی دیکھا گیا ہے۔ نیچے دی گئی تصویر میں آپ پنجاب کے مختلف علاقوں میں بلاسم راٹ کا حملہ تربوز و دیگر سبزیوں پر دیکھ سکتے ہیں۔

اب اگلا سوال یہ ہے کہ ٹماٹر و دیگر فصلوں پر بلاسم راٹ کا حملہ کیوں ہوتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ زمین میں کیلشیم کی کمی، بلاسم راٹ کی بیماری کا واحد سبب ہے۔ لہذا جو کاشتکار بھی بلاسم راٹ سے ملتی جلتی علامات بتاتا ہے اسے فوری طور پر گوارا کھاد تجویز کر دی جاتی ہے۔ چونکہ گوارا کھاد میں کیلشیم تقریباََ 8 فیصد موجود ہوتی ہے لہذا خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کھاد ڈالنے سے زمین میں کیلشیم کی کمی پوری ہو جائے گی اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔

لیکن یہ بات بظاہر جتنی سادہ نظر آتی ہے اتنی سادہ ہے نہیں. یہی وجہ ہے کہ کھیت میں گوارا کھاد ڈالنے سے یہ مسئلہ شاذ و نادر ہی حل ہوتا ہے۔

اب اگر آپ ذہنی طور پر تیار ہیں تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اس سادگی میں دراصل پیچیدگی کیا ہے۔

تو پھر اصل مسئلہ ہے کیا؟

بلاسم راٹ دراصل زمین یا پودے میں نہیں بلکہ پودے کے متاثرہ حصے یعنی پھل میں کیلشیم کی کمی کا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ جس کھیت میں فصل، بلاسم راٹ کا شکار ہوتی ہے وہاں کیلشیم کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے پودے جن کے پتوں اور ٹہنیوں میں کیلشیم کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے ان کے پھل بھی کیلشیم کی کمی کی وجہ سے بلاسم راٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لہذا اس گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلاسم راٹ کا مسئلہ زمین میں کیلشیم کی کمی کے مسئلے سے زیادہ پھل تک کیلشیم کے نہ پہنچنے کا مسئلہ ہے۔

تو آئیے اب یہ بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کے باعث کیلشیم کا پھل تک پہنچنا ممکن نہیں رہتا۔

ہوتا یہ ہے کہ جب فصل کو پانی لگایا جاتا ہے تو زمین میں موجود کیلشیم پانی میں بالکل اسی طرح حل ہو جاتی ہے جیسے نمک پانی میں حل ہوتا ہے۔ جب پودا جڑوں کے ذریعے کیلشیم ملا پانی جذب کرتا ہے تو پانی کے ساتھ پودے کو کیلشیم بھی مل جاتی ہے۔ لہذا اگر زمین کا وتر زیادہ دیر تک خشک رہے تو کیلشیم کا زمین سے پودے کے اندر تک بہاؤ رک جاتا ہے اور پودے میں کیلشیم کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

جب کیلشیم جڑ کے راستے پودے کے تنے میں داخل ہوجاتی ہے تو پھر یہ دیکھنا ہونا ہے کہ یہ کیلشیم صرف پودے کے پتوں میں جائے گی،صرف پھلوں میں جائے گی یا پتوں اور پھلوں میں برابر تقسیم ہو گی۔ ایک بات سمجھ لیں کہ کیلشیم اس طرف جاتی ہے جہاں نشوونما کا کام تیزی سے ہو رہا ہوتا ہے۔ جب پودا اپنا ابتدائی پھل لے رہا ہوتا ہے تو اس وقت پتے، پھلوں کی نسبت زیادہ تیزی سے نشوونما پا رہے ہوتے ہیں۔ نتیجتاََ سارے کا سارا کیلشیم پتوں کی طرف رخ موڑ لیتا ہے اور پھلوں کے اندر کیلشیم کی کمی ہو جاتی ہے۔

اب اس عمل سے ہم دو باتیں سمجھ سکتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ بلاسم راٹ کا مسئلہ ان ورائٹیوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جن کے پتے زیادہ گھنے، بھرپور، چوڑے اور ابتدائی پھل کے وقت تیزی سے نشوونما پا رہے ہوتے ہیں۔

دوسری بات یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ بلاسم راٹ کا مسئلہ ابتدائی پھلوں پر زیادہ اور بعد والے پھلوں پر کم ہوتا ہے۔ کیونکہ جب بعد والے پھل بن رہے ہوتے ہیں تو اس وقت پتوں کی نشوونا یا تو رک چکی ہوتی ہے یا پھر ان کی نشوونما کی رفتار بہت سست ہو چکی ہوتی ہے اور یوں ساری کی ساری نائٹروجن پتوں کی طرف نہیں جاتی اور پھلوں کو بھی اپنا حصہ مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاشتکار اس دھوکے رہتا ہے کہ گوارا کھاد ڈالنے سے مسئلہ حل ہو گیا ہے حالانکہ بلاسم راٹ کا مسئلہ زیادہ تر پہلی فروٹنگ کے پندرہ بیس دن بعد از خود ختم ہو جا تا ہے۔ چونکہ ابتدائی پھل کی قیمت منڈیوں میں زیادہ ہوتا ہوتی ہے لہذا بلاسم راٹ کی وجہ سے کاشتکار کو اچھا خاصا مالی نقصان ہو جاتا ہے۔

اب ایک اور بات سمجھئے!

زمین کو اندھا دھند کھادیں ڈالنے سے بھی بلاسم راٹ کا پرابلم آ سکتا ہے۔

دراصل ہوتا یوں ہے کہ پودے میں داخل ہونے کے لئے کھادیں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرتی رہتی ہیں۔ اگرایک خاص قسم کی کھاد پودے کی جڑوں کے آس پاس زیادہ مقدار میں موجود ہے اور دوسری کم مقدار میں ہے تو کم مقدار والی کھاد کا زور نہیں چلے گا اور زیادہ مقدار والی کھاد پودے میں داخل ہوتی رہے گی۔

زمین سے پودے میں داخل ہونے کے حوالے سے کیلشیم نسبتاََ کمزور عنصر ہے۔

یعنی اگر زمین میں نائٹروجن، پوٹاشیم، سوڈیم اور میگنیشیم کھادیں زیادہ مقدار میں ڈال دی جائیں تو وہ پودے میں کیلشیم کا داخلہ بند کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے پودا کیلشیم کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور بلاسم راٹ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

ہو سکتا اس مرحلے پر آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہو کہ اس سارے جھنجٹ کا بہترین حل یہ ہے کہ پودے کو کیلشیم کی سپرے کر دی جائے لیکن سپرے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

کیونکہ کیلشیم ایک ایسا عنصر ہے جو صرف بذریعہ جڑ ہی پھل میں جا سکتا ہے۔ سپرے کرنے سے کیلشیم اگر پتوں میں جذب ہو بھی جائے تو اس بات کا بالکل امکان نہیں ہے کہ وہ پتوں سے پھلوں میں منتقل ہو جائے گی۔ لہذا کیلشیم کا سپرے کرنے کے باوجود پھل میں کیلشیم کی کمی بدستور رہتی ہے۔

آئیے اب بات کرتے ہیں کہ اس بیماری سے پچنے کا طریقہ کیا ہے؟

نمبر 1۔ فصل کو مناسب وقفوں سے پانی دیں۔ کوشش کریں کہ زمین سوکھنے سے پہلے پہلے پانی لگا دیں۔ لیکن بہت زیادہ پانی بھی فصل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ بس زمین وتر حالت میں رہے۔ بیڈ پر فصل کاشت کر کے یہ مقصد بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

نمبر 2۔ دوسرا کام یہ ہے کہ آپ زمین کو گھاس پھوس سے ڈھانپ کر رکھیں۔ بعض لوگ پلاسٹک شیٹ سے بھی بیڈ کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ اس سے زمین زیادہ دیر تک وتر حالت میں رہے گی اور مٹی کا درجہ حرارت بھی زیادہ نہیں بڑھے گا۔

نمبر 3۔ زمین میں اندھا دھند کھادیں مت ڈالیں۔ کوشش کریں کہ کھاد ڈالنے سے پہلے اپنی زمین کا ٹیسٹ کروا لیں۔ ٹماٹر کی فصل کو 90 کلوگرام فی ایکڑ سے زیادہ خالص نائٹروجن نہیں چاہئے ہوتی۔ اس لئے زمین میں پہلے سے موجود نائٹروجن کو سامنے رکھ کر مناسب مقدار میں نائٹروجن کھاد ڈالیں۔ اسی طرح پوٹاشیم، سوڈیم اور میگنیشیم کھادوں کا بھی اندھا دھند استعمال مت کریں بلکہ متوازن مقدار زمین میں کھادیں ڈالیں۔

نمبر 4۔ اگر آپ کی زمین میں کیلشیم کی کمی ہے تو ایسی کھادیں استعمال کریں جن میں کیلشیم وافر مقدار میں موجود ہو۔ نائٹروفاس میں کیلشیم 9 فیصد، گوارا کھاد میں کیلشیم 8 فیصد، سنگل سپر فاسفیٹ میں کیلشیم 16 فیصد تک پایا جاتا ہے۔ اسی طرح جپسم ڈال کر بھی زمین میں کیلشیم کی کمی پوری کی جا سکتی ہے۔ جپسم میں کیلشیم 28 سے 30 فیصد تک پایا جاتا ہے۔

اللہ تعالی آپ کی کھیتی اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔

تحریر

ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، زرعی یونیورسٹی، فیصل آباد

جواب دیجئے