غذائی قلت ایک عوامی مسئلہ

غذائیت کی کمی کے باعث کئی بیماریاں جنم لے رہی ہیںاور پوری دنیا میں یہ ایک بحران کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی غذائی قلت سے گہرے اثرات مرتب ہونے پر فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں مائیکرو نیوٹرینٹس میلنیوٹریشن (ایم این ایم ) کے باعث تیزی سے کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں جس کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی صورتحال گھمبیر ہے اور غذائی قلت میں اضافے کا خدشہ ہے۔

یہ سمجھنا ناگزیر ہے کہ غذائی قلت ایک اہم مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز،حکومت اور حکومت سے متعلق کئی شعبے (وفاقی و صوبائی)جیسا کہ فوڈ اور ہیلتھ انڈسٹری کوخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی مجموعی کاوشیں غذائی قلت کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔

نیوٹریشنز اور ہیلتھ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ خو ر ا ک کو بہتربناکر اس مسئلے پرقابوپایا جاسکتاہے ۔انہوں نے بتایا’اسٹیپل فوڈ فورٹیفیکیشن ‘کے ا جزاء کا ہماری روز مرہ خوراک شامل ہونا اہم ہے۔ روزمرہ کی چیزوں گندم،گھی،نمک اور دودھ میں فوڈفورٹیفیکیشن کے اجزاء شامل کرکےکھانے سے خاص طورپر5سال سے کم عمر بچوں اور خواتین میں غذائی قلت کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

فوڈفورٹیفیکیشن کے استعمال سے غذائی قلت میںکمی اور انسانی صحت میں تیزی سے بہتری آسکتی ہے۔ غذائی قلت کو دور کرنے کے لیے فوڈ فورٹیفیکیشن بہت ہی مؤثر طریقہ ہے، خاص طور پرجب بڑے پیمانے پر صنعتی ادارے ان غذائی اجزاء کو اجناس میں شامل کریں گے۔ ٹارگٹڈ فورٹیفیکیشن (مثال کے طور پر6سے60ماہ کے بچوں کے لئے نیوٹرینٹ فورٹیفائیڈ کمپلی منٹری فوڈز لازمی ہیں) کے ذریعےشیرخوار بچوں اورحاملہ خواتین میں غذائی قلت کو پورا کرنا نہایت اہم ہے۔ جب انسانی جسم کو ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ملتی تو پھر صورتحال مزید خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔شہروں میں چونکہ جانورپالنے کا رواج نہیں ہوتا اس لیے لوگ دودھ یا دوسری خالص چیزیں حاصل نہیں کرپاتے، ایسے میں چھوٹے بچوں میں غذائی قلت دور کرنے کے لیےٹارگٹڈ فورٹیفیکیشن ایک بہت ہی سستا ذریعہ ہے۔

پاکستان میں فوڈ فورٹیفیکیشن پروسیس کے ذریعے غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانے کیلیے براہ راست اقدامات کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ سال برطانیہ کے ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈیلویلپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) کے تعاون سے پانچ سالہ ’’فوڈ فورٹیفیکیشن پروگرام ‘‘ کا آغاز بھی کیا گیا۔ اس پروگرام کا مقصد پاکستان بھر میں غذائی اجناس (گندم ،آٹا،خوردنی تیل اور گھی وغیرہ) میںفورٹیفیکیشن شامل کرنے کو یقینی بناناہے۔ پروگرام کے تحت پروڈکشن کی بہتری، فورٹیفائیڈ گندم کے آٹے میں آئرن،فولک ایسڈ،وٹامن B12 اور زنک جبکہ فورٹیفائیڈ خوردنی تیل اور گھی میں وٹامن اے اورڈی کو شامل کرنا ہے۔

اس حوالے سے سخت اقدامات کے باوجود غذائی قلت پر پوری طرح قابو نہیںپایا جاسکاہے۔ گندم، خوردنی تیل اور گھی میںفورٹیفیکیشن کرنا ایک مثبت پہلو ہے لیکن اس پروگرام کے تحت خاص طور پر بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بچے سب سے زیادہ دودھ پیتے ہیں، جس میں غذائی اجزاء وٹامن اے اور ڈی شامل کیاجاسکتا ہے۔ فورٹیفائیڈ دودھ کے سب سے اہم فائدے میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے قدرتی طور پر کیلشیم کو بہتر بنانے میںمددملتی ہے۔ یہاں اس امر کی ضرورت ہے کہ فوڈ انڈسٹری جو بچوں کی غذاؤں کے حوالے سے ماہر مانی جاتی ہے، ان کو بھی فورٹیفائیڈ دودھ اور اس سے بنی پراڈکٹس کو مارکیٹ میں لانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بچوں کوٹارگٹ کرتے ہوئے ان کی کھانے پینے کی اشیاء میںوٹامن شامل کئے جائیں۔

دنیا کے دیگر ممالک میںبہترین نتائج کو دیکھتے ہوئے اس پروگرام کی بھرپور تائید کی جاسکتی ہے، جس کے تحت فوڈ فورٹیفیکیشن سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل دار آمد کروایا جارہا ہے۔یہ قوانین فعال طریقے سے غذائی قلت کی وجہ سے مرتب ہونے والے گہرے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں۔

2011ءمیں 18ویں ترمیم کے بعد پاکستان کی صوبائی حکومتیں اپنی پرونس۔فوکسڈ نیوٹریشن پالیسی اوراسٹریٹجی اینڈ آپریشنل پلان بنانے کی ذمہ دار ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو متضادپالیسیاں بنانے کے بجائےایک جیسے معیار کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینی چاہیےجن پر عمل کرنا فوڈ اینڈ ڈیری انڈسٹری کے لیے بھی ممکن ہوگا۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے ایسی سفارشات پیش کی جاتی رہی ہیںکہ فوڈ انڈسٹری سے متعلق قوانین وفاقی حکومت کی جانب سے لاگوکیے جائیں تاکہ صوبائی سطح پر اٹھنے والے اختلافات کاخاتمہ ہوسکے۔

دریں اثنا ء تمام پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کو حل کریں۔ ترکی، میکسیکو، چلی، تھائی لینڈ اور ایتھوپیا جیسے ممالک نے اپنی سیاسی منشا اورعزم کے ذریعے غذائیت میں کمی پر کافی حد تک قابوپایا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں دو اہم سیاسی جماعتوں نے ہیلتھ کیئر اور نیوٹریشن کو اپنے منشور میں بھی شامل کریا ہواہے۔

پہلے مرحلے میں غذائی قلت کے بحران پر قابو پانے کے لیے شعور اجاگر کرنے اور پرعزم ہونے کی ضرورت ہے۔ عوام کی کچھ مخصوص ضروریات ہوتی ہیں جنھیں ہم پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہی ضرویات میں غذائیت سے بھرپورغذاؤں کا شامل کیاجانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس طرح نہ صرف آپ کی بلکہ آپ کے گھروالوں کی صحت بھی بہتررہے گی اور بہت سی بیماریوں سے بچے رہیں گے۔

جواب دیجئے