لوسرن کی بیماری اور ان کا علاج

تنے کا گلاو :
یہ بیماری ایک پھپھوند سے لگتی ہے۔ اس بیماری کے حملہ کی صورت میں پودے کے تنے کے نچلے حصہ پر دھنسے ہوئے دھبے بن جاتے ہیں۔ اس متاثرہ جگہ سے تنا گل جاتاہےاور سیاہ رنگ کا ہو جاتاہے۔ پودے مرجھا کر سوکھ جاتے ہیں۔ فصل کو بیماری سے بچانےکے لئے کھیتوں کو ہموار رکھیں تاکہ نشیبی جگہوں پر پانی کھڑا نہ ہونے پائے۔ پانی زیادہ لگانے سے بھی اجتناب کریں۔ جس کھیت میں یہ بیماری پائی جائے اس میں کٹائی کے بعد مقامی توسیع عملہ کے مشورہ سے مناسب زہر کا استعمال کریں او ر متاثرہ کھیت میں تین تا چار سال لوسرن کاشت کرنے سے اجتناب کریں۔

لوسرن کا سڑنا :
یہ بیماری ایک پھپھوند سے لگتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے سفید روئی کے گالوں کی طرح کی پھپھوند زمین اور پودوں پر نظر آتی ہے ۔ جس سے پودے گلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور آخر کار مرجھا جاتےہیں۔ یہ بیماری کھیت میں ٹکڑیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اس بیماری کا حملہ عموماً جنوری ، فروری میں دیکھا گیاہے۔ علاج کی خاطر زمین کی تیاری کے وقت گہراہل چلایا جائے۔ زمین کو ہموار رکھا جائے اور زیادہ پانی لگانے سے اجتناب کیا جائے۔ فصل کو کٹائی کے بعد مقامی توسیع عملہ کے مشورہ سے مناسب زہرکا سپرے کریں۔
انتھر اکنوز :
یہ بیماری ایک پھپھوند سے لگتی ہے۔ اس بیماری کے حملہ کی صورت میں پتوں اور تنوں پر گہرے بھورے بیضوی شکل کے دھبے بنتے ہیں بیماری کے شدید حملہ کی صورت میں تنے گل جاتے ہیں اور پودے مرجھا جاتےہیں۔ فصل کی کٹائی کے بعد مقامی توسیع عملہ کے مشورہ سے مناسب زہر کا سپرے کریں۔
بیج والی فصل کی کٹائی، گہائی اور سنبھال :
لوسرن کی فصل سے بیج حاصل کرنے کے لئے اس کی کٹائی وسط مارچ سے آخر مارچ تک بند کر دینی چاہئے۔لوسرن کی بیج والی فصل کر بڑی احتیاط سے پورے طرح پکنے پر کاٹنا چاہئے۔ بیج کی فصل کاٹنے کے بعد کھیت میں آبپاشی سے اس کی نشوونما دوبارہ شروع ہوجاتی ہے۔ لوسرن کا بیج چونکہ بہت قیمتی ہوتاہے لہٰذا اس کی کٹائی، گہائی او ر سنبھال پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ فصل کو کچا ہرگزنہ کاٹاجائے۔ کیونکہ اس طرح ناقص بیج حاصل ہوگا۔ کٹائی صبح کے وقت کی جانی چاہیے۔ تاکہ بیج سے بھر پور پکی ہوئی ڈوڈیاں کم سے کم کھیت میں گریں اور بیج کا نقصان نہ ہو۔ زیادہ رقبہ پر کاشتہ بیج والی فصل کی کٹائی کمبائن ہارویسٹر سے کرائی جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ بصورت دیگر فصل کو کاٹ کر کھیت میں بڑے بڑے گھٹے باندھ لئے جائیں۔ اور خشک ہونے پر کہائی کرکے بیج کو خشک لیکن ہوادار سٹور میں کپڑے کے تھیلوں یا پٹ سن کی بوری میں سنبھال کر رکھا جائے۔

(3) جئی کی کاشت
جئی موسم سرما کا مفید اور غذائیت سے بھر پور چارہ ہے۔ اور سخت سردی میں بھی اپنی بڑھوتری جاری رکھتی ہے۔ اسے زیادہ تر ریمونٹ ڈپووں، لائیوسٹاک فارموں، اور بڑے شہروں کے نزدیک کاشت کیا جاتاہے۔ برسیم کےساتھ ملا کر کاشت کرنے سے برسیم کی پہلی دو کٹائیوں سے نہ صرف غذائیت بھر پور چارہ حاصل ہوتاہے ۔ بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجاتاہے۔ نیز فصل کی پہلی کٹائی بھی نسبتاً جلد تیار ہوجاتی ہے۔ یہ غذائی لحاظ سے بہت اعلی چارہ ہے۔ اور باررداری والے جانوروں کے علاوہ دودھ دینے والے جانوروں کے لئے بھی یکساں مفید ہے۔ علاوہ ازیں جئی کی خالص فصل یا برسیم کےساتھ ملا کر اس کا خشک چارہ بھی تیار کیا جاسکتاہے۔ جئی کا بھوسہ گندم کے بھوسہ کی نسبت زیاد ہ غذائیت کا حامل ہوتاہے۔ جئی کی یہ خوبیاں دیکھتے ہوئے زمیندار اس کی کاشت پر توجہ دینے لگے ہیں۔

اقسام :
ایس 2000 ادارہ چارہ جات سرگودھا کی منظور شدہ قسم ہے۔ جو سبز چارے اور بیج کی زیادہ پیداوار کی حامل بہترین قسم ہے۔ اسے شروع اکتوبر میں کاشت کرکے دسمبر کے آخر میں چارے کے لئے کاٹ کر اس کی پھوٹ سے بیج بھی حاصل کیا جاسکتاہے۔ یا پھر چارے کی دوسری بھر پور کٹائی بھی لی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ادارہ مذکورہ کی منظور شدہ قسم ، پی ڈی 2 ایل وی 65،بھی بہترین پیداواری صلاحیت کی حامل ہے۔ جو کہ چارے کے لئے کچھ پچھیتی تیار ہوتی ہے۔ جئی کی ایک نئی قسم سرگودھا جئی 2011 منظور ہوچکی ہے جو کہ ایس 2000 سے 9 فیصد زیادہ پیداوار کی حامل ہے۔ قومی زرعی تحقیقاتی ادارہ ، اسلام آباد کی قسم این اے آرسی جئی بھی بہتر پیداوار کی حامل ہے۔

آب وہوا :
جئی کی فصل سرد مرطوب آب و ہو ا میں بہترین نشوونما کرتی ہےیہ فصل خشکی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر آبپاشی کے لئے پانی میسر ہوتو اسے نسبتاً گرم مرطوب آب وہو امیں بھی کامیابی سے کاشت کیا جاسکتاہے۔ جہاں گندم کاشت ہوتی ہے۔ وہاں جئی بھی کامیابی سے کاشت کی جاسکتی ہے۔

زمین اور اس کی تیاری :
بھاری میرا زمین اس کی کاشت کےلئے موزوں ترین ہے۔ زمین تین چار بارہل اور سہاگہ چلا کر تیار کرلینا چاہیے۔اچھی طرح تیارکردہ ہموار زمین میں اس کی نشوونما یکساں اور بہتر ہوتی ہے۔ البتہ سیم زدہ ، نشیبی ، کمزور اور ریتلی زمینیں اس کی کاشت کے لئے مناسب نہیں۔

شرح بیج او ر وقت کاشت :
چارے والی فصل کےلئے 32 کلو گرام جبکہ بیج والی فصل کےلیے 16تا20 کلو گرام بیج فی ایکڑ استعمال کرنا چاہیے۔ بجائی کے لئے صاف ستھر ا ،صحت مند اور معیاری ہونا چاہیے۔ فصل کو کاشت کرنے سے پہلے سفارش کردہ پھپھوندی کش زہربیج کو لگائیں۔ اس سے جئی کے تمام ممکنہ بیماریوں کو کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکتاہے ۔ چارے کے لئے فصل کو حسب ضرورت شروع اکتوبر سے آخر نومبر تک جبکہ صرف بیج کے لئے فصل کو 15 بومبر سے 30 نومبر تک کاش کرنا چاہیے۔ شروع اکتوبر میں چارے کےلئے کاشتہ فصل کو 70 تا 75 دن کےبعد چارے کے لئے کاٹ کر اس کی پھوٹ سے بیج کی اچھی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر صرف ایک ہی کٹائی لینی ہو تو فصل 90 تا 100 دنوں میں بھر پور چارہ کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

کھادوں کا استعمال :
چارہ جئی کی کاشت کےلئے تمام کھادیں بوائی کے وقت استعمال کریں۔ کھادوں کی مقدار کا تعین درج ذیل گوشوارہ کے مطابق کریں۔

نائٹروجن فاسفورس پوٹاش بجائی کےوقت پہلے پانی کے ساتھ
ڈیڑھ بوری ڈی اے پی+ایک بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ (18فیصد) +ڈیڑھ بوری یوریا+ایک بوری پوڑاشیم سلفیٹ یا پانچ بوری سنگل سپر فاسفیٹ (14فیصد)+ڈیڑھ بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا ڈیڑھ بوری ٹرپل سپر فاسفیٹ+ڈیڑھ بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا ساڑھے تین بوری نائٹروفاس +ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ ایک بوری یوریا یا دو بوری کیلشیم ایمونیم نائٹریٹ

طریقہ کاشت :
ایک فٹ کے فاصلے پر لائنوں میں کاشت کرنے سے چارے اور بیج کی بھر پیداوار لی جاسکتی ہے۔

آبپاشی :
چارے کے لئے جئی کی فصل کو راونی سمیت تین تاچار پانی درکار ہوتے ہیں۔ پہلا پانی بوائی کے تین ہفتہ بعد ااور بعد ازاں حسب ضرورت پانی دیں۔ بیج والی فصل کو خصوصاً گوبھ پر اور دوران عمل زرپاشی پانی کی خصوصی فراہمی زیادہ پیداوار کی ضامن ہوتی ہے۔

کیڑے اور ان کا تدارک :
چارے کے لئے بوئی گئی فصل پر زہر یلی ادویات کا استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ فصل کو جلد کاٹ لینے کی حکمیت عملی اختیار کرنی چاہیے جبکہ بیج والی فصل کو کیڑوں سے بچانے کے لئے گوشوارہ نمبر 5 ملاحظہ فرمائیں۔

برداشت :
چارے والی فصل سے بآسانی 700 من فی ایکڑ سبز چارہ حاصل کیا جا سکتاہے۔ جبکہ بیج کی پیداوار 20تا25 من فی ایکڑ حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر فصل کو صرف بیج کے لئے کاشت کرنا ہو تو اسے 15 نومبر کاشت کری تاکہ اس کے گرنے کا امکان کم سے کم ہوجائے۔ صرف چارے کےلئے کاشت کردہ فصل کو 50 فیصد پھول آنے پر کاٹ دینا چاہیے تاکہ بہتر پیداوار حاصل کی جاسکے۔

جواب دیجئے