کورونا وائرس: اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب 100 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے دو لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 8 ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ وائرس پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں تاحال اس کے 299 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

اس کی علامات کیا ہیں؟

یہ بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔

ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے کچھ مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے نوبت آ جاتی ہے۔

واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے۔

لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔

ورونا وائرس کس قدر جان لیوا ہے؟

اس وائرس سے متاثر ہونے والے 44000 مریضوں کے ڈیٹا کے جائزہ کے بعد عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ

  • 81 فیصد افراد میں اس کی ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں
  • 14 فیصد میں شدید علامات ظاہر ہوئیں
  • پانچ فیصد لوگ شدید بیمار پڑ گئے

اس بیماری جسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا سے مرنے والوں کی شرح ایک سے دو فیصد رہی لیکن ان اعداد پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ماسک

ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے اور شرح اموات بڑھ بھی سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی غیر واضح ہے کہ ہلکی پھلکے علامات والے کتنے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس صورت میں شرح اموات کم بھی ہو سکتی ہے۔

ہر سال ایک ارب افراد انفلواینزا کا شکار ہوتے ہیں اور دو لاکھ نوے ہزار سے چھ لاکھ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ فلو کی شدت ہر سال بدلتی ہے۔

کیا کورونا وائرس کا علاج ممکن ہے؟

تاحال اس کا علاج بنیادی طریقوں سے کیا جا رہا ہے، مریض کے جسم کو فعال رکھ کر، سانس میں مدد فراہم کر کے، تاوقتکہ ان کا مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے قابل ہو جائے۔

تاہم اس کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک اس کی دوا انسانوں پر آزمانی شروع کر دی جائے گی۔

ہسپتالوں میں وائرس کے خلاف پہلے سے موجود دواؤں کا استعمال شروع کر رکھا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کے آیا ان کا کوئی اثر ہے۔

ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

کورونا

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:

  • اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو۔
  • کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو سے، اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔
  • کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
  • ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو۔ ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
  • اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے ںمی دشواری تو فوری طبی مدد حاصل کریں۔ طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔
A person in a decorative mask and a face mask at the Venice Carnaval

یہ کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے؟

ہر روز ہزاروں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کہ اصل میں یہ اس سے کہیں کمبڑے پیمانے پر پھیل رہا ہوسکتا ہے کم سے کم اس سے 10 گنا زیادہ جتنا کہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا جا رہا ہے۔

یہ اب تک جنوبی کوریا، اٹلی، ایران میں پھیل چکا ہے جس کے بعد یہ خدشہ ہے کہ یہ عالمی وبا بن جائے گی۔ کسی بھی انفیکشن کو عالمی وبا اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل کر خطرہ بن جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ اس تعداد کے حوالےسے فک مند ہیں خصوصات ایسے کیسز کے بارے میں جن کا بلاواسطہ تعلق چین سے ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’وائرس کے موجود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘

کورونا

موسم سرما میں سردی اور فلو کی وجہ سے یہ زیادہ تیزی سے پھیلا، امکان ہے کہ موسم میں تبدیلی اس وبا کے پھیلاو کو روکنے میں مدد دے گی۔

تاہم کورونا وائرس کی طرح کا ایک وائرس ’مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم‘ گرمیوں میں سعودی عرب پھیلتا ہے۔ اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ گرمیاں اس وبا کو روک دیں گی۔

یہ سب شروع کیسے ہوا؟

یہ وائرس خود کوئی ’نیا نہیں‘ ہے۔ یہ صرف انسانوں میں نیا ہے۔ یہ ایک مخلوق سے دوسری میں آیا ہے۔

کئی ابتدائی کیسز چین میں ووہان کے ایسے بازار سے جوڑی گئے جہاں جانوروں کا گوشت ملتا تھا۔

A woman walks in front of the closed Huanan wholesale seafood market in the Chinese city of Wuhan, Hubei province

چین میں کئی لوگ جانوروں سے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے یہ وائرسز منتقل ہو سکتا ہے۔ اور گنجان آباد شہروں کا مطلب ہے کہ یہ بیماریاں آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔

سارس نامی بیماری بھی کورونا وائرس سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ چمگادڑوں سے شروع ہوئی اور سیوٹ کیٹ سے ہوتی ہوئی انسانوں تکل پہنچی تھی۔

سارس کی وبا نے چین میں سال 2002 کے دوران 774 افراد کو ہلاک کیا جبکہ آٹھ ہزار سے زائد اس سے متاثر ہوئے۔

حالیہ وائرس کورونا وائرس سے کی یہ ساتویں قسم ہے اور اب تک اس میں کؤیی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن جب حالات سنبھل جائیں گے تو سائنسدان اس کا قریبی جائزہ لیں گے۔

جواب دیجئے