مکئی کی چھلی کے سرے پر دانے نہ بننے کی اصل وجہ جانیں!

مکئی کی چھلی کے سرے پر دانے نہ بننے کی زیادہ تر 2 وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مکئی کی زیادہ تر جو ورائٹیاں کاشت کی جا رہی ہیں، ان میں گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں ایک حد سے زیادہ درجہ حرارت یا گرمی کی وجہ سے چھلی کے سرے پر دانے نہیں بنتے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ پودے میں غذائی اجزاء مثلاََ نائٹروجن، فاسفورس یا پوٹاش وغیرہ کی کمی کے سبب چھلی کے سرے پر دانے نہیں بنتے۔

آئیے اب باری باری ان دونوں وجوہات کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پہلی وجہ

زیادہ گرمی یا زیادہ درجہ حرارت چونکہ بہاریہ مکئی کا ہی مسئلہ ہے۔ لہذا ہم اپنی بات میں بہاریہ مکئی کو ہی سامنے رکھتے ہیں۔

بات دراصل یوں ہےکہ بہاریہ مکئی کو اپنے اگاؤ کے لئے 28 سے 32 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔

اگاؤ کے بعد پودا جب پودا اپنی نشوو نما کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو اس دوران درجہ حرارت 38 ڈگری سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔

اگر درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے رہے تو پودا خوب پھلتا پھولتا ہے۔ لیکن جیسے ہی درجہ حرارت 38 ڈگری سے اوپر جاتا ہے پودے کی نشوونما متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔

42 ڈگری سینٹی گریڈ کے بعد پودے میں خوراک بننے کا عمل سست روری کا شکار ہو جاتا ہے جس سے نشوونما میں نمایاں کمی ظاہر ہونے لگتی ہے۔

لیکن جب درجہ حرات 45 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جاتا ہے تو پودے میں خوراک بنانے کا عمل رک جاتا ہے جس کی نتیجے میں پودے کی نشوونما مکمل طور پر رک جاتی ہے اور پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

45 ڈگری سینٹی گریڈ پر پودا لیف فائرنگ اور ٹیسل بلاسٹ جیسے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

شدید گرمی کی وجہ سے مکئی کے پتے اور سٹے جھلسے ہوئے ہیں

لیف فائرنگ میں پودے کے پتے سوکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ٹیسل بلاسٹ میں پودے کے سٹے سوکھ کر کاغذ کی طرح کے ہو جاتے ہیں۔ یعنی سٹہ اس قدر خشک ہو جاتا ہے کہ ہاتھ لگانے پر کاغذ کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

آئیے اب چھلی پر دانے بننے کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہوتا یوں ہے کہ چھلی پر دانے ہمیشہ نیچے سے بننے شروع ہوتے ہیں اور پھر مرحلہ وار اوپر کی طرف بنتے چلے جاتے ہیں۔

بہاریہ مکئی میں دانے بننے کا یہ عمل عام طور پر اپریل کے مہینے میں شروع ہوتا ہے جب درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر مکئی میں دانے بننے کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے۔ حتی کہ ایک ڈیڑھ مہینے میں چھلی کا آدھے سے زیادہ حصہ دانوں سے بھر جاتا ہے۔

لیکن جیسے ہی ہماری فصل مئی جون کے مہینے میں داخل ہوتی ہے درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر ان مہینوں میں، جب چھلی کے اوپر والے سرے پر دانے بن رہے ہوتے ہیں، کسی موقع پر درجہ حرارت 45 ڈگری یا 45 ڈگری سے اوپر چلا جائے تو شدید گرمی کی وجہ سے پودے میں دانے بننے کا عمل رک جاتا ہے اور چھلی کے سرے پر بعض صورتوں میں 35 یا 40 دانے نہیں بن پاتے۔

اگرنیم سائنسی زبان میں بات کی جائے تو ہم یوں کہیں گے کہ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے پودے کے نر اور مادہ حصے یا تو مر جاتے ہیں یا اگر وہ زندہ بھی رہیں تو شدید گرم ماحول میں وہ ملاپ نہیں کر پاتے۔ اس طرح پودے کے نر اور مادہ حصوں کے عدم ملاپ کی وجہ سے بچے یعنی بیج نہیں بن پاتے اور سرے خالی رہ جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بہاریہ مکئی کی جنوری یا فروری کاشت کا ہی مشورہ دیتی ہیں اور مارچ میں مکئی کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔ کیونکہ جنوری یا فروری میں کاشت کی ہوئی فصل درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی بیج بنانے کا عمل مکمل کر لیتی ہیں اور ورائٹی کامیاب رہتی ہے۔

واضح رہے کہ چھلی کے سرے خالی رہنے والا مسئلہ زیادہ تر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ورائٹیوں میں ہوتا ہے۔ تحقیقاتی ادارہ، مکئی، جوار و باجرہ، یوسف والا، ساہیوال میں تیار ہونے والی اقسام مثلاََ YH-1898, FH-1046, اور FH-949 وغیرہ میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنوں کے بیج ہی گرمی کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

اس کی وجہ عام طور پر یہ بتائی جاتی ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے بیج پاکستان میں تیار نہیں کرتیں بلکہ زیادہ تر یہ اپنے بیج تھائی لینڈ یا دیگر ایسے ملکوں میں تیار کرتی ہیں جہاں درجہ حرارت زیادہ نہیں ہوتا۔ لہذا کم درجہ حرارت پر تیار کیا گیا بیج جب گرم علاقے میں کاشت کیا جاتا ہے تو وہ زیادہ درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکتا۔

البتہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جب کوئی بھی ورائٹی فروخت کرنا مقصود ہوتی ہے تو اس ورائٹی کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے ملک کے مختلف حصوں میں کاشت کر کے آزمایا جاتا ہے۔ اور ہر طرح کی آزمائش پر پورا اترنے والی ورائٹیوں کو ہی فروخت کے لئے منظور کیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مسئلہ ورائٹیوں کا نہیں بلکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا ہے جس میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

یہ تصویر مکئی کے پودوں میں مختلف غذائی اجزاء کی کمی کے چھلیوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو واضح کرتی ہے

ماہرین کے درمیان جاری یہ بحث کاشتکار کا مسئلہ نہیں ہے۔ کاشتکار کا مسئلہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی فصل کی کٹائی کرتا ہے تو اس وقت اکثر چھلیوں کے سرے دانوں سے خالی ہوتے ہیں جس سے پیداوار میں خاطر خواہ کمی واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چاہئے کہ وہ ایسے ورائٹیاں سامنے لائیں جو 48 درجہ حرارت پر بھی دانے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

دوسری وجہ

آئیے اب دانے نہ بننے کی دوسری وجہ پر بات کرتے ہیں۔ جس میں پودوں میں غذائی اجزاء کی کمی کو چھلیوں کے سروں پر دانے نہ بننے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔

اس وجہ پر بات کرنے سے پہلے آپ نیچے دی گئی تصویر دیکھیں جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پودے میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش کی کمی کے باعث چھلی کے سرے پر دانے بننے کا عمل کس حد تک متاثر ہوتا ہے۔

یہ تصویر اپنی جگہ پر لیکن ہمارے ہاں کاشتکاروں میں عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ چھلی کے سرے، زمین میں پوٹاش کی کمی کی وجہ سے خالی رہتے ہیں اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پوٹاش کھادوں کا استعمال ترجیحی بنیادوں پر کرتے ہیں۔

ایک غیر رسمی سروے میں زیادہ تر کاشتکاروں نے یہ بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سیل افسر یہ بتاتے ہیں کہ چھلیوں کے سروں پر دانے نہ بننے کی وجہ زمین میں پوٹاش کھاد کی کمی ہے۔ کاشتکاروں کا اپنا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جس کھیت میں پوٹاش استعمال کی گئی ہو وہاں چھلیوں کے سروں پر دانے نہ بننے والا مسئلہ زیادہ نہیں ہوتا۔

لیکن پوٹاش کی کمی والی بات میں بھی ایک راز ہے۔

دراصل پوٹاش کھاد میں یہ خوبی ہے کہ یہ پودے کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہے۔ پودے میں اگر قوت مدافعت زیادہ ہو گی تو وہ گرمی کی شدت کا زیادہ بہتر مقابلہ کر سکے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں بھی اصل وجہ گرمی برداشت نہ کر سکنے والی ورائٹی ہی ہے۔ البتہ پوٹاش کے استعمال میں کسی حد تک اس مسئلہ کا جزوی حل ضرور پوشیدہ ہے۔

لہذا اب کاشتکار کے لئے کیا مشورہ ہے؟

کاشتکار کے لئے مشورہ یہ ہے کہ وہ بہاریہ مکئی کی کاشت فروری کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے پہلے مکمل کر لے۔

اگر وہ کسی وجہ سے لیٹ ہو جائے تو پھر کوشش کرے کہ مقامی طور پرتیار کئے گئے کسی با اعتماد کمپنی کے بیجوں کو ترجیحاََ کاشت کرے جن میں گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہو۔

اگر کاشتکار لیٹ بجائی میں بھی ملٹی نیشنل کے بیج ہی کاشت کرنا چاہتا ہے تو پھر اس بات کو یقینی بنائے کہ کھیت میں پوٹاش کی کمی نہ ہو۔

مارچ میں کاشت کئے گئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مکئی کے چاروں طرف مقامی طور پر تیار کی گئی مکئی کاشت کرنے سے بھی نقصان کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

تحقیقی اداروں کو چاہئے کہ وہ مارکیٹ میں موجود تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بیجوں کی گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت کو آزما کر کاشتکاروں کے لئے ہدایات جاری کرنے کا ایک مستقل نظام وضع کرے تاکہ کاشتکارمکئی کے بیج کا درست انتخاب کر سکیں۔

اللہ آپ کی کھیتی اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔

تحریر

ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد

تکنیکی معاونت

عرفان یوسف 
ماہر مکئی تحقیقاتی ادارہ، مکئی، جوار و باجرہ، یوسف والا، ساہیوال

جواب دیجئے