مکئی کے تنے کی بیماری جس سے پیداوار میں 25 فی صد تک نقصان ہو جاتا ہے

مکئی کے تنے کی بیماری جس سے پیداوار میں 25 فی صد تک نقصان ہو جاتا ہے

 مکئی کے پتے سوکھ رہے ہیں

جیسا کہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ مکئی کے پتے سوکھ رہے ہیں۔ پتے سوکھنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

نمبر 1۔ آپ کی فصل کو پانی کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

نمبر 2۔ شدید گرمی یعنی 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس درجہ حرارت کی صورت میں پتے خشک ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق مکئی کے کھیت میں پودوں کی تعداد 26000 فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اور اگر پودوں کی تعداد 30000 سے اوپر چلی جائے تو سٹاک راٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لہذا کھیت میں پودوں کی مناسب تعداد رکھنے سے بھی اس مسئلے سے کسی حد تک نمٹا جا سکتا ہے

ماہرین

نمر 3۔ فصل پر مائٹس یا جوؤں کا حملہ ہو سکتا ہے۔ جوئیں سائز میں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ سرسری طور پر دیکھنے سے نظر نہیں آتیں۔ لیکن خطرناک اس قدر ہوتی ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے پودوں کا رس چوس کر انہیں خشک کر دیتی ہیں۔

نمبر 4۔ آپ کی فصل کو نائٹروجن کھاد کی کمی ہو سکتی ہے۔ نائٹروجن کھاد کی کمی کی وجہ سے بھی پتے نیچے سے خشک ہو جاتے ہیں۔

مکئی کی فصل پر حملہ کرنے والی ایک خطرناک بیماری سٹاک راٹ کے حملے کا نتیجہ

لیکن اوپر دی گئی تصاویر میں ان چاروں میں سے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔

یہ دراصل مکئی کی فصل پر حملہ کرنے والی ایک خطرناک بیماری سٹاک راٹ کے حملے کا نتیجہ ہے کہ مکئی کے پتے اس طرح خشک ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اس مضمون میں ہم اسی بیماری کی پہچان، حملے کی وجوہات اور اس کی روک تھام پر بات کریں گے۔

سٹاک راٹ کی بیماری میں عام طور پر پودے کا تنا نیچے سے دوسری تیسری پورسے اندر ہی اندر گلنا سڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ بیماری کے آغاز میں پودا باہر سے بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے اور کاشتکار کو اس بیماری کا تب پتا چلتا ہے جب مکئی کی فصل پکنے کے قریب ہوتی ہے۔ بیماری کی شدت سے پتے نیچے سے پیلے ہونا شروع ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سوکھنے لگتے ہیں۔

سٹاک راٹ کے حملے والے پودے کا تنا چیر کر دیکھیں تو اس طرح کا نظر آتا ہے

حملہ شدہ تنے کو ہاتھ سے ایک طرف کھینچیں تو تنا ٹوٹ کر پودا نیچے گر جاتا ہے۔ بعض اوقات ہلکی سی ہوا چلنے سے بھی پودا گر جاتا ہے۔ پودے کے نچلے حصے والی دو تین پوروں کو دبائیں تو تنا نرم اور کھوکھلا سا محسوس ہوتا ہے اور ہلکا سا دبانے سے بھی پچک جاتا ہے۔ تنے کو لمبائی کے رخ چیر کر دیکھیں تو اس کا رنگ قدرے بھورا سا نظر آئے گا۔ اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے تنے کے متاثرہ حصے کو کاٹیں تو اندر سے گندے انڈے جیسی تیز بو آتی ہے۔ جس پودے پر یہ بیماری آ جائے اس پر موجود چھلی کا منکا ٹوٹ جاتا ہے اور چھلی کا اوپر والا سرا نیچے کی جانب لٹک جاتا ہے۔

سٹاک راٹ کے حملے کی وجہ سے چھلی نیچے کو مڑی ہوئی نظر آ رہی ہے

سٹاک راٹ کو آپ مکئی کا کینسر یا خاموش قاتل بھی کہ سکتے ہیں۔ کیونکہ جب یہ بیماری ظاہر ہوتی ہے یا کاشتکار کو جب اس بیماری کا پتا چلتا ہے تو اس وقت پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہوتا ہے اور یہ وہ سٹیج ہوتی ہے جب مرض ناقابل علاج ہو چکا ہوتا ہے۔

یہ بیماری پنجاب سمیت پاکستان کے تمام صوبوں میں عام پائی جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 3 قسم کی مختلف پھپھوندیاں یہ بیماری پھیلانے کی ذمہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس فصل پرمکئی کا گڑوویں کا حملہ زیادہ ہو وہاں یہ پھپھوندیاں زیادہ نقصان کرتی ہیں کیونکہ مکئی کا گڑوواں جب تنے کو زخم لگاتا ہے تو اس زخم پر پھپھوندی باآسانی نشوونما کر سکتی ہے۔

یہ بیماری کھیت کے 80 فیصد پودوں کو متاثر کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں پیداوار 25 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔

بعض کاشتکار اسے جڑ کی بیماری سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ یہ جڑ کی نہیں بلکہ تنے کی بیماری ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟

یہ بات ذہن میں رہے کہ اگرسٹاک راٹ ایک دفعہ کھیت میں آ جائے تو پھر اس پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ لہذا اس کو کنٹرول کرنے کی بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ اسے فصل پر حملہ آور ہونے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔

آئندہ سطروں میں ہم سٹاک راٹ سے بچنے کی حکمت عملی پر بات کریں گے۔

پہلا کام

اس بیماری سے بچنے کے لئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ کاشتکار ایسی ورائٹیاں کاشت کریں جو سٹاک راٹ کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہوں۔ تحقیقاتی ادارہ برائے مکئی، جوار و باجرہ، ساہیوال کی تین ہائبرڈ ورائٹیاں YH-1898, FH-1046, FH-949 سٹاک راٹ کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ اسی طرح نیشل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھی اکثرورائٹیاں سٹاک راٹ سے پاک بتائی جاتی ہیں۔ البتہ کاشتکاروں کو چاہئے کہ وہ بیج ہمیشہ کسی قابل اعتماد کمپنی کے مستند ڈیلر سے خریدیں اوربیج خریدتے وقت اس بات کی تسلی کر لیں کہ حاصل کیا گیا بیج سٹاک راٹ کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہے۔

دوسرا کام

دوسرا کام یہ ہے کہ مکئی کاشت کرنے سے پہلے بیج کو کوئی اچھا سا پھپھوندی کش زہر لگایا جائے۔ ایک بات کا خیال رہے کہ زہر ایسا ہو جو بیج کے ساتھ اچھی طرح چپک جائے۔ بعض زہر بیج کے ساتھ اچھی طرح چپکتے نہیں ہیں اور کاشت کے دوران ہی آدھے بیجوں سے زہر اتر جاتا ہے۔ اس سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ لہذا آپ نے بیج کو زہر لگانے والا کام تسلی بخش طریقے سے کرنا ہے۔ اگر آپ بیج کو اچھے طریقے سے پھپھوندی کش زہر لگا لیں تو اس بیماری کے امکانات 40 سے 50 فی صد تک کم ہو جائیں گے۔

بعض زہر ایسے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں جن میں ایک ہی بوتل کے اندر پھپھوندی کش اور حشرات کش دونوں زہریں ملائی گئی ہوتی ہیں۔ اس طرح کے فارمولے کا استعمال سب سے بہتر ہے۔ کیونکہ اس طرح پھپھوندی والی بیماریوں کے ساتھ ساتھ فصل ابتدا میں حملہ کرنے والے کیڑے مکوڑوں خاص طور پر شوٹ فلائی سے بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔

تیسرا کام

اگر کسی کھیت میں یہ بیماری آ جائے تو کوشش کریں کہ مکئی کی اگلی دو تین فصلیں اس کھیت میں نہ لگائیں۔ اس طرح کھیت میں موجود بیماری کے جراثیم بڑی حد تک ختم ہو جائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ فصلوں کو مستقل بنیادوں پر ادل بدل کرتے رہیں۔

چوتھا کام

ماہرین کے مطابق مکئی کے کھیت میں پودوں کی تعداد 26000 فی ایکڑ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اور اگر پودوں کی تعداد 30000 سے اوپر چلی جائے تو سٹاک راٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ لہذا کھیت میں پودوں کی مناسب تعداد رکھنے سے بھی اس مسئلے سے کسی حد تک نمٹا جا سکتا ہے۔

پانچواں کام

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ اگر فصل پر مکئی کے گڑوویں کا حملہ ہو جائے تو سٹاک راٹ آنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ گڑوویں کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں پر بھی نظر رکھیں تاکہ سٹاک راٹ کے امکان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

چھٹا کام

مکئی کی فصل کو ضرورت سے زیادہ نائٹروجن کھاد نہ ڈالیں اور نہ ہی پوٹاشیم کھاد ضرورت سے کم ڈالیں۔ پوٹاشیم کھاد کی کمی اور نائٹروجن کھاد کی زیادتی بھی اس بیماری کا سبب بنتی ہے۔ لہذا متوازن کھاد ڈالنے کےلئے بہتر ہے کہ اپنی زمین کا ٹیسٹ کروا لیں۔

اللہ تعالی آپ کی کھیتی اور رزق میں برکت عطا فرمائے۔

ڈاکٹر شوکت علی

تحریر

ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، زرعی یونیورسٹی، فیصل آباد

محمد عرفان یوسف
ماہر مکئی، تحقیقاتی ادارہ، مکئی، جوار و باجرہ، یوسف والا، ساہیوال

جواب دیجئے