پنجاب میں روایتی کاشتکاری کی جدید فارمنگ میں تبدیلی

وید عصمت کاہلوں

صوبہ میں زرعی ماڈل کی تبدیلی کیلئے روایتی زرعی طریقوں کو جدید فارمنگ کے امور میں تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے فارم میکنائزیشن اور آٹومیشن، لانگ ٹرم پلاننگ، دنیا میں رائج نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانا، بین الاقوامی منڈیوں کی مانگ کے مطابق زرعی اجناس پیدا کرنا، کم وسائل اور کم اخراجات سے زیادہ منافع کمانا، فارم لیبر میں کمی لانا، پانی کی بچت کیلئے نئے نظام ہائے آبپاشی متعارف کرانا، ہائی ویلیو ایگریکلچر کو فروغ دینا، کاشتکاروں کو جدید زرعی علوم سے آراستہ کرنا، اعلیٰ پیداواری صلاحیت کی حامل فصلوں کے ہائبرڈ بیج متعارف کرانا، اجناس کی ویلیو ایڈیشن کے نتیجہ میں زیادہ منافع حاصل کرنا، گویا کہ پنجاب میں زرعی شعبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا عمل تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ہم زرعی شعبہ میں انقلابی اقدامات سے نہ صرف اپنی ملکی ضروریات بلکہ دوسرے ممالک کو بھی وافر مقدار میں زرعی اجناس برآمد کرکے کثیر زرمبادلہ کمانے کے قابل ہو جائیں گے۔

وجودہ سیکرٹری زراعت پنجاب محمد محمودجو حقیقی معنوں میں کاشتکاروں کے خیر خواہ ہیں۔ محکمہ زراعت کی کارکردگی میں بہتری اور کاشتکاروں کے فلاحی منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنانے میں شب و روز کوشاں ہیں۔ زرعی شعبہ میں نت نئی ریفارمز متعارف کراکے زرعی

پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنا رہے ہیں۔ بعض ایسے اقدامات اٹھارہے ہیں جو بظاہر ناممکن لگتے تھے لیکن انہیں بھی ممکن بنانے میں اہم عملی کردار ادا کر رہے ہیں۔ قصہ مختصر محمد محمود صوبہ میں زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کیلئے فیاضانہ وسائل کی فراہمی سمیت مستقبل کی پلاننگ میں قابل تحسین اور منفرد اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے۔ بڑے مسائل کے ساتھ وسائل کی بھی کمی کا سامنا

ہے۔ ان متعدد مسائل سے نبردآزما ہونے اور وسائل کا صحیح مصرف کرنے کیلئے شعبہ زراعت کو ایک ویژنری لیڈر کی ضرورت تھی جس کا سیکرٹری محمد محمود نے بہترین ثبوت دیا۔پنجاب کے کاشتکاروں کی خوش قسمتی ہے کہ ان حالات میں ان کے مسائل کے حل اور زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے محمد محمود سیکرٹری زراعت پنجاب اہم کردار ادا کررہے ہیں جو فارمر فرینڈلی منصوبوں کی تیاری اور ان پر عملدرآمد کے ماہر مانے جاتے ہیں۔منصوبے متعارف کرانے کے سلسلہ میں خادم پنجاب کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ خادم پنجاب زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے فیاضانہ وسائل مہیا کررہے ہیں۔ اب روایتی زراعت جدید زراعت میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔ زرعی شعبہ کی ترقی میں تحقیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مانگ پر مبنی تحقیق کیلئے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میںزرعی شعبہ کی ترقی کیلئے زرعی اور وٹرنری یورنیورسٹیوں کا قیام، کاشتکاروں کیلئے بلاسود قرضوںکی فراہمی، چھوٹے کاشتکاروں کو اینڈرائیڈ فونز کی مفت فراہمی، کھادوں پر بھاری سبسڈی، گندم اور کپاس کے بیج کی شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے مفت فراہمی، 60 فیصد سبسڈی پر ہائی ایفیشنسی ایریگیشن سسٹم کی تنصیب، 80 فیصد سبسڈی پر سولر سسٹم کی تنصیب، زرعی شعبہ میں انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا استعمال، زرعی زمینوں کی زرخیزی معلوم کرنے کیلئے سوائل سیمپلنگ کا منصوبہ، ہائی ویلیو ایگریکلچر کے فروغ کیلئے اقدامات، پیسٹی سائیڈ اور سوائل اینڈ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کیلئے آئی ایس او سرٹیفیکیشن کا عمل، زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن، زراعت سے متعلقہ نیشنل و انٹرنیشنل کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد، دیہی زندگی کو روایتی رنگ دینے کیلئے سپر کبڈی لیگ کا انعقاد، ڈویژنل سطح پر زرعی میلوں کا انعقاد، پاکستانی پھلوں اور سبزیوں کی دنیا میں پہچان اور مانگ بڑھانے کیلئے انٹرنیشنل ہارٹی ایکسپو کا انعقاد، انٹرنیشنل ہائی ٹیک ایکسپو 2018کا انعقاد، محکمہ زراعت کے افسروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے کے۔پی۔ آئی۔ (Key Performance Indicators) متعارف کرانا، اچھی پرفارمنس کے صلہ میں ایوارڈ اور ریوارڈ دینے کا سلسلہ، تیلدار اجناس کی کاشت کے فروغ کیلئے5 ہزار روپے فی ایکڑ سبسڈی کی فراہمی، اجوہ، مڈجول، خلاص، عنبر، اور برہی جیسی اعلیٰ نسل کے کھجور کے پودوں کی مفت فراہمی، زیتون کے 20 لاکھ پودوں کی مفت فراہمی، بغیر بیج کے کنو کے پودوں کی سبسڈی پر فراہمی، کاٹن کیلنڈر کی تیاری، سوشل میڈیا کیلئے کاٹن فیس بک پیج بنانا، ڈویژنل و ڈسٹرکٹ ایڈوائزری کمیٹیوں و ٹاسک فورس سب کمیٹیوں کی دوبارہ بحالی سمیت ان کی ماہانہ میٹنگز کو یقینی بنانا، دالوں کی کاشت کے فروغ کا منصوبہ، بے موسمی سبزیوں کی

کاشت اور پیداوار میں اضافہ کیلئے ٹنل ٹیکنالوجی کا منصوبہ، کاٹن زون میں سپرے مشینری کی سبسڈی پر فراہمی، زرعی آلات کی سبسڈی پر فراہمی، فارم میکانائزیشن کیلئے ہائی ٹیک سنٹرز کے قیام کیلئے اڑھائی کروڑ روپے فی سنٹر سبسڈی کی فراہمی، آم، کنو اور چاول کی بین الاقوامی منڈیوں میں مانگ بڑھانے کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش و دیگر متعدد عملی اقدامات، سائنسدانوں اور فیلڈ عملہ کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے ملکی اور غیر ملکی ٹریننگز (Trainings) کا اہتمام، ایگری و کاٹن پالیسی کی تیاری، راجن پور میں کاٹن ریسرچ اسٹیشن کا قیام، رحیم یار خان میں مینگو ریسرچ اسٹیشن کا قیام، بہاولپور میں تحقیقاتی ادارہ برائے کھجور کے قیام کیلئے

منصوبہ کی تیاری، ایگریکلچر ڈلیوری یونٹ کا قیام، یہ سب وہ حقائق ہیں جنہیں نہ صرف پنجاب کے کاشتکار بلکہ حکومت پنجاب کے ناقدین اور سیاسی مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات نہ صرف پنجاب بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ زرعی شعبہ کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کیلئے اٹھائے گئے ہیں ایسے تمام اقدامات اٹھانے اور ان پر عملدرآمد کا سہرا محمد محمود سیکرٹری زراعت پنجاب کے سر ہے۔ جو صوبہ میں زراعت کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں عملی کردار کررہے ہیں۔ پنجاب کے کاشتکار خادم اعلیٰ اور سیکرٹری زراعت پنجاب محمد محمود کی ان کاوشوں سے بھرپور استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ 

جواب دیجئے