پانی کا بحران اور اس کا حل

گذشتہ ہفتہ چیمبر آف کامرس میں Water Crisis and its Solution کے حوالے سے سیمینار ہوا جس میںسندھ ویژن میں واٹر ونگ کے ہیڈ محترم میر مظہر تالپور نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس حیثیت سے انھوں نے پانی کے اہم ایشوز کے حوالے سے سندھ میں ابھرتے ہوئے خیالات کی ترجمانی کی۔ اجلاس کی صدارت لاہور چیمبر کے نائب صدر فہیم الرحمن سہگل نے کی۔ اپنے خطاب میں انھوں نے پانی کے مسائل پر وزیر اعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے فنڈنگ کی شروعات کرتے ہوئے قوم کے بہتر مستقبل کےلئے قدم بڑھایا ہے۔ جس طرح مقامی اور اورسیز پاکستانی اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

انھوں نے کہا پاکستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ اگر اس سلسلے میں فوری اقدامات نہ کئے گئے تو پانی کے بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ ضروری ہے کہ کالاباغ ڈیم سمیت تمام چھوٹے اور بڑے ڈیم بنا کر پانی کے ایک ایک قطرے کو محفوظ کرکے پانی کی قلت کو ہمیشہ کےلئے ختم کر دیا جائے۔ اس حوالے سے صوبوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ دنیا میں 120 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے مقابلہ میں ہم صرف 30 دن کا پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکہ دریائے کلوریڈا پر 900 دن، مصر دریائے نیل پر 1000 دن اور جنوبی افریقہ دریائے اورنج پر 500 دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ آج اس سیمینار میں ماہرین کی شرکت خوش آئند ہے ۔

میری آپ سے گذارش ہے کہ اس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کریں تا کہ اہم آبی بحران پر قابو پا سکیں۔ ان کے بعد جناب میر مظہر تالپور نے اپنے ایک گھنٹہ کے خطاب میں پانی کے بحران پر بھرپور گفتگو کرتے ہوئے سندھ ویژن کی بھی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا بحران کسی ایک صوبہ کےلئے نہیں بلکہ یہ تمام صوبوں میں یکساں ہے۔سندھ اور دیگر صوبوں میں پانی کی کمی ہے تو پنجاب میں بھی زیر زمین پانی کا لیول گر چکا ہے۔ اس کےلئے ہمیں کھلے دل سے سوچنا ہوگا کہ ہم ان مسائل سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایسا لائحہ عمل ضروری ہے جس میں تمام صوبوں کے خدشات دور ہو سکیں۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ پانی کی تقسیم کے عمل میں شفافیت پیدا کی جائے۔

کالاباغ ڈیم پر تحفظات ہیں تو دیگر چھوٹے بڑے تمام ڈیموں کی تعمیر کا کام نہیں رکنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی صوبوں کے درمیان ڈائیلاگ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تا کہ پانی کے مسائل پر differences دور ہو سکیں۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ کو چشمہ بیراج کے بجائے گدو کے مقام پر پانی کی مقدار کا تعین کرنا چاہیے تا کہ صوبہ سندھ کو پورا پانی مل سکے۔ سابق صدر لاہور چیمبر و چیئرمین کالاباغ ڈیم کمیٹی جناب عبدالباسط نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں ضرور دیکھنا چاہیے کہ پانی کے بحران کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ بھاشا اور مہمند ڈیم یقینا اچھے منصوبے ہیں، ضرور بننے چاہئیں۔ اس کے ساتھ کالاباغ ڈیم پر بھی کام ہونا چاہیے کیونکہ کم وقت اور کہیں کم لاگت میں یہی ڈیم ہے جو 2025 سے پہلے بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم مستقبل میں آنے والے بحران کو ٹال سکتے ہیں۔راقم نے اپنے خطاب میں آبی بحران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم چار صوبے نہیں بلکہ چار بھائی ہیں۔

بھائیوں میں اختلافات پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ اسی طرح چاروں بھائیوں میں بھی پانی کے مسئلہ پر اختلافات شدید ہوتے گئے لیکن اس کے ساتھ ہی 1991 میں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم پر اتفاق رائے ہو گیا۔ اب صوبوں کے درمیان اس پر کوئی اختلاف نہیں کہ دستیاب پانی میں کس صوبے کا کتنا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی بھی ڈیم بنتا ہے تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کس صوبہ کا کتنا حصہ ہے؟ اگر سندھ یا کوئی صوبہ یہ سمجھتا ہے کہ کالاباغ ڈیم تعمیر کئے بغیر وہ اپنے صوبے کا پانی زیر استعمال لا سکتا ہے تو ہمیں کالاباغ ڈیم کا سوال چھوڑ دینا چاہیے لیکن اگر کالاباغ ڈیم پر اختلاف کرنے والے صوبوں کے ماہرین اس امر پر متفق ہوں کہ کالاباغ ڈیم تعمیر کئے بغیر وہ اپنے حصہ میں آنے والے کل پانی کو مستعمل نہیں بنا سکتے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں اور غلطی کی اصلاح کرنا مومن کی نشانی ہوتی ہے۔ اب افغانستان میں بھارت کی مدد سے دریائے کابل پر 12 ڈیم تعمیر کرنے پر پلان بن چکا ہے جبکہ 7 ڈیم شروع کئے جا چکے ہیں۔ اگر یہ ڈیم بن گئے جبکہ کالاباغ ڈیم پر اختلافات یونہی جاری رہے تو پاکستان ہمیشہ کےلئے دریائے کابل کے پانی کے بڑے حصہ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ دریائے کابل اور دریائے سوات کے علاوہ پوٹھوار ریجن کے اضلاع ہری پور ہزارہ، اسلام آباد، راولپنڈی، نصف ضلع جہلم، چکوال، اٹک، پشاور، نوشہرہ، کوہاٹ اور دریائے کرم کا پانی تربیلا سے نیچے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ وہ پانی ہے جو صرف ڈھائی تین ماہ کے دوران موسم برسات میں شدید سیلاب لا کر تباہی کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں اس پانی کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کالاباغ ڈیم کے علاوہ کوئی اور ایسی سائیٹ ہے جہاں ہم اس پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ہم اس مقام پر اتفاق کرنے کےلئے تیار ہیں۔

افسوس کا مقام یہی ہے کہ اس پانی کو صرف کالاباغ کے مقام پر ہی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے تو پھر کالاباغ ڈیم کی مخالفت کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں سب سے بڑا کردار جھوٹ بولنے والوں کا ہے جنھوں نے اپنی دروغ گوئی سے عوام کو ورغلایا اور ان میں شکوک پیدا کرکے ان کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔ 2004ءمیں ٹیکنکل کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ہر صوبہ سے دو سینئر آبی ماہرین نامزد کئے گئے۔ صوبہ سندھ کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اس صوبہ کے سینئر ٹیکنوکریٹ اے این جی عباسی کو ٹیکنیکل کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ انھوں نے اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لیا اور ایسے کوائف بیان کئے جن پر غور کیا جائے تو جھوٹ کا پلندا نظر آتا ہے۔ ڈیم میں ذخیرہ پانی تو ہمارے مستعمل پانی میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ اس وقت منگلا ڈیم کی ریزنگ نہ ہوئی تھی لیکن انھوں نے منگلا ریزنگ کے 2.9 اور گومل ڈیم کے 1.0 ملین ایکڑ ذخیرہ کی گنجائش کو بھی استعمال میں ڈال کر انتہائی بددیانتی کا ثبوت دیا۔ یہی نہیں صوبوں میں پانی کی تقسیم کا فارمولا طے پا چکا ہے۔ اس لحاط سے مستقبل کے منصوبوں کےلئے جو پانی درکار ہے۔ انہیں ڈیم بنا کر ہی موثر بنایا جا سکتا ہے لیکن انھوں نے ان منصوبوں کو بھی مستعمل پانی میں ڈال کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ پانی ہی نہیں ہے تو ڈیم کس طرح بنے گا؟ کرنل(ر) عبد الرزاق بگٹی نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کراچی ٹھٹھہ اور سجاول اضلاع کو سمندر لگتا ہے۔ کراچی میں سمندر پر پشتے لگا کر بند بنایا گیا جس سے اب کراچی کو سمندر سے کوئی خطرہ نہیں۔ اسی طرح دریائے سندھ جہاں سمندر میں گرتا ہے، اس مقام پر بیریئر تعمیر کیا جائے جس سے کور کرتے ہوئے ٹھٹھہ اور سجاول کے اضلاع میں سمندر پرمکمل بند بنایا جائے۔ اس پر کوسٹل ہائی وے بھی بنائی جا سکتی ہے جس سے ان علاقوں کو براہ راست کراچی سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سندھ میں سمندر کے کنارے تمام علاقوں کو نہ صرف سمندر بردی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ ان علاقوں کی انتہائی زرخیز ترین زمین سے ریکارڈ زرعی پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ماحولیات پاکستان محترمہ رخسانہ نوید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت نہیں رہا کہ پانی کے بحران کو موخر رکھا جائے۔ دنیا میں بڑی موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ پاکستان میں اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ہمیں فوری طور پر ماحولیات کی بہتری کےلئے ڈیموں کی تعمیر پر سوچنا نہیں بلکہ کام کرنا ہوگا تا کہ آبی بحران سے نبٹا جا سکے۔ پاکستان میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے کو سزا نہیں ملتی۔ پہلی دفعہ صادق اور امین کی اصطلاح سامنے آ رہی ہے۔ اگر دروغ گوئی کرنے والے ایسے افراد کو بھی کٹہرے میں لایا جائے تو کالاباغ ڈیم ہی نہیں تمام متنازعہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

جواب دیجئے