کلراٹھی زمینوں کی تشخیص اور اصلاح

کلر اٹھی زمینوں کی تشخیص اور اصلاح                                                     

ایگرانومی ڈیپارٹمنٹ،زرعی یونیورسٹی،فیصل آباد                              محمد رمان محمد سجاد
پاکستان کا علاقہ شمال مشرق میں کوہ ہمالیہ وقراقرم کے دامن سے شروع ہو کر جنوب مغرب میں بحیرہ عرب کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ہمارے ملک میں جہاں پانی نہروں کے ذریعے زمین کو سیراب کرتا ہے وہیں اس کا زیادہ اور غلط استعمال زمینوں کے لیے مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے لیے نہری پانی کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے۔ نتیجتًا پانی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے زیر زمین پانی کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کا معیار زیادہ نمکیات کی وجہ سے تسلی بخش نہیں ہے۔ گرم اور خشک علاقوں میں کلر کا پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے کیونکہ ان علاقوں میں پانی کی قطعی حرکت نیچے کی بجائے اوپر کو ہوتی ہے۔ پانی بخارات بن کر اُڑجاتا ہے اور اپنے ساتھ زمین کی نچلی تہوں سے لائے ہوئے نمکیات کو زمین کی اوپروالی سطح پر چھوڑ جاتا ہے۔
ّ  سفید کلر والی زمینیں (تھورذدہ زمینیں
ایسی زمینوں میں حل پذیر نمکیات ( کیلشیم،میگنیشیم اور سوڈیم کے کلورائیڈ اور سلفیٹ والے نمکیات) کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں نمکیات کی مقدار (برقی موصلیت) 4 ٖڈیسی سائمنز فی میٹر(dS/m) سے زیادہ ہوتی ہے۔ڈیسی سائمنز فی میٹر نمکیات کو ناپنے کی ایک اکائی ہے۔جس کے مطابق زمین کے نمکیاتی محلول میں بجلی سرایت کی جاتی ہے۔جتنی زیادہ بجلی سرایت کرے گی اتنے ہی زیادہ نمکیات ہو نگے۔ ان زمینوں کا کیمیائی تعامل 8.5 سے کم ہوتا ہے اور قابل تبادلہ سوڈیم 15 فیصد سے کم ہوتا ہے۔ ایسی زمینوں کو سفید نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے سفید کلر والی زمینیں کہا جاتا ہے۔ مون سون کی بارشوں کے بعد کلر اکتوبر سے مارچ تک کے مہینوں میں زمین کی سطح کے اوپر نظر آتا ہے۔
کالے کلر والی زمینیں (ماڑہ زمینیں
ان زمینوں میں حل پذیر نمکیات کی حد 4 ڈیسی سائمنزفی میٹر سے کم ہوتی ہے جبکہ قابل تبادلہ سوڈیم کی مقدار 15فیصد سے زیادہ کیمیائی تعامل8.5 سے زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی زمینوں کو کالے کلر والی (باڑہ) زمینیں کہتے ہیں۔ ان زمینوں میں نامیاتی مادہ سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ اور سوڈیم کاڑبونیٹ سے مل کر سیاہی مائل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اس کو کالا کلر کہا جاتا ہے۔(

سفید اور کالے کلر والی زمینیں 
یسا کہ نام سے ظاہر ہے، ان زمینوں میں حل پذیر نمکیات کے ساتھ ساتھ کالے کلر (قابل تبادلہ سوڈیم) کی مقدار بھی محفوظ حد سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی زمینیں جن میں حل پذیر نمکیات4 ڈیسی سائمنز فی میٹر سے زائد ہوں اور قابل تبادلہ سوڈیم کی مقدار بھی15فیصد سے زیادہ ہو۔ ان زمینوں کو تھورباڑہ زمینیں کہتے ہیں۔

اصلاح
تھور زدہ یا سفید کلر والی زمینیں (Saline Soils)
ان زمینوں میں چونکہ حل پذیر نمکیات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے ان زمینوں کی اصلاح صرف پانی دینے سے ہو جاتی ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین مسام دار ہو اور زیر زمین پانی کی سطح کم از کم 6تا7 فٹ تک ہو ایسی زمینوں میں 2تا3 مرتبہ گہرا ہل چلا کر زیادہ مقدار میں پانی دینے سے سفید کلر میں حل ہو کر نیچے چلا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ایکڑ فٹ پانی تقریبًا 70تا80 فیصد تک نمکیات ایک فٹ کی گہرائی تک کم کر دیتا ہے جبکہ تین ایکڑ فٹ پانی تقریبًا 95 فیصد ن`مکیات ایک فٹ کی گہرائی تک ختم کر دے گا۔یہ نمکیات حل ہو کر اس پانی کے ساتھ پودوں کی جڑوں کی پہنچ سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ تھور زدہ زمینوں کی اصلاح کے بعد کھیت کو مسلسل زیر کاشت رکھیں تاکہ نمکیات دوبارہ سطح زمین پر آکر جمع نہ ہوں۔ زمین کی اصلاح کے بعد دھان کی کاشت زیادہ سود مند رہتی ہے اس لیے زمین کی اصلاح مارچ اور اپریل کے مہینوں میں کی جائے تاکہ اصلاحی عمل کے بعد سبز کھاد یا نامیاتی کھاد کے استعمال کے لیے 1-1/2 ماہ کا وقت مل سکے۔
باڑ ہ یا کالے کلر والی زمینیں (Sodic Soils)
ایسی زمینوں کی اصلاح جپسم یا دیگر اصلاح کنندہ مرکبات کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ ان زمینوں میں قابل تبادلہ سوڈیم زیادہ ہوتا ہے۔ یہ سوڈیم مٹی کے ذرات سے چمٹا ہوتا ہے جو زمین کو سخت اور اس کی ساخت کو خراب کر دیتا ہے۔ ایسی زمینوں میں ہل کا چلانا اور پانی کا جذب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم ان زمینوں کی اصلاح اس طرح کر سکتے ہیں کہ اس سوڈیم کو مٹی سے جدا کرنے کے لیے جپسم یا کوئی اور اصلاح کنندہ کیمیائی مرکب استعمال کریں اور پھر اس کی مناسبت سے زمین کو پانی دیں۔ جپسم زمین میں پانی کے ذریعے حل ہو کرحل پذیر کیلشیم بناتا ہے جو کہ قابلِ تبادلہ سوڈیم کو مٹی کے ذرات سے ہٹا کر اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ سوڈیم پانی میں حل ہو کر زیر زمین پودوں کی جڑوں سے نیچے چلا جاتا ہے۔ اس طرح زمین بھر بھری ہو جاتی ہے اور فصلیں بہتر طور پر نشو و نما پا سکتی ہیں۔
تھور باڑہ یا سفید اور کالے کلر والی زمینیں(Saline Sodic Soils)
ایسی زمینوں میں حل پذیر نمکیات اور قابل تبادلہ سوڈیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ان زمینوں کی شناخت اور اصلاح تھورزرہ زمینوں کی نسبت مشکل ہوتی ہے۔ ایسی زمینوں کو زائد پانی دینے سے حل پذیر نمکیات تو دور ہو جاتے ہیں لیکن قابل تبادلہ سوڈیم کی اصلاح نہ کی جائے تو زمین باڑہ یعنی کالے کلر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اس کی ساخت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ تھور باڑہ اور باڑہ زمینوں کی اصلاح کا طریقہ ایک جیسا ہوتا ہے۔
جپسم کی مقدار اور س کا زمین میں ڈالنا
جپسم کے استعمال سے پہلے اس بات کا خیال رہے کہ زیرزمین پانی کی سطح 6 سے7 فٹ نیچی ہو۔ تجزیہ زمین کے بعد جپسم کی صحیح مقدار کا تعین کریں۔ کاشتکار کو جپسم کی تجویز کردہ پوری مقدار ہی استعمال کرنی چاہیے کیونکہ تجزیہ زمین کی روشنی میں زمین میں موجود سوڈیم کی مقدار معلوم کرنے کے بعد ہی جپسم کا تعین کیا جاتا ہے۔ جپسم زمین میں پانی کے ذریعے حل ہو کر حل پذیر کیلشیم بناتا ہے جو کہ قابلِ تنادلہ سوڈیم کو مٹی کے ذرات سے ہٹا کر اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔ اس لیے تجویز کردہ جپسم کی مقدار میں کمی یا زیادتی دونوں اصلاح کے عمل پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔ جپسم ڈالنے سے پہلے زمین کی مختلف سطحوں میں کلر کی مقدار کو دیکھتے ہوئے گہرا ہل چلائیں۔اگر زمین کی نچلی سطح میں اوپر والی سطح کی نسبت کلر کم ہو تو مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں۔ اس کے برعکس نچلی سطح میں زیادہ کلر ہو تو چیزل ہل چلائیں۔ اگر مختلف سطحوں میں کلر کی موجودگی کا فرق نہ معلوم ہو تو پھر چیزل ہل چلائیں کیونکہ تھور باڑہ اور تھور زدہ زمینوں میں سوڈیم کی موجودگی سے سخت تہہ بن جاتی ہے۔ اس لیے گہرا ہل زمین کی سخت تہہ کو توڑنے اور اصلاح کے عمل کا تیز کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ گہرا ہل چلانے کے بعد جپسم کو یکساں طور پر مشین یا چھٹہ کے ذریعے کھیت میں بکھیر دیں پھر عام ہل چلا کر مٹی میں ملا دیں۔ جپسم بکھیرنے کے بعد کھیت کو ایک فٹ گہرائی تک پانی دیں اور پانی کی گہرائی کو ہفتہ دس دن قائم رکھیں۔ اگر جپسم ڈالنے کے بعد دھان کی فصل لگائی جائے تو یہ اصلاح کے عمل کو تیز اور بہتر کر دیتا ہے اور پانی کے استعمال پر زائد خرچ نہیں آتا۔ دھان کی فصل میں زیادہ پانی استعمال ہونے کی وجہ سے جپسم کی حل پذیری بڑھ جاتی ہے اور سوڈیم نچلی تہوں میں چلا جاتا ہے۔
فصلوں کا بہتر اگاؤ اور مختلف طریقہ ہائے کاشت
کلر اٹھی زمینوں میں کامیاب اور منافع بخش پیداوار حاصل کرنے کے لیے فصلوں کا اگاؤ بہتر بنایا جائے۔ بجائی کے وقت پانی کی مناسب مقدار نمکیات کے اثرکو کم کر دیتی ہے۔ فصلوں کو تروتر میں کاشت کریں، اور بیج زیادہ گہرائی تک نہ بوئیں۔ اس کے علاوہ گندم،کینولا وغیرہ کو برسیم کی طرح کھڑے پانی میں چھٹہ دے کر بھی کاشت کیا جا سکتا ہے۔ کلر اٹھی زمینوں میں عام حالات میں سفارش کردہ شرح بیج سے 20 سے25 فیصد زیادہ بیج استعمال کریں۔ اس کے علاوہ بعض فصلوں (مثلاًً کپاس،مکئی وغیرہ ) کو کلر اٹھی زمینوں میں کھیلیوں پر بڑی کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے اسی لیے کلر اٹھی زمینوں میں طریقہ کاشت میں معمولی تبدیلی کرنے سے حساس فصلیں بھی کامیابی سے کاشت ہو سکتی ہیں۔
کیمیائی کھادوں کا استعمال
کلر اٹھے پن کی وجہ سے زمین کا کیمیائی تعامل (pH) بڑھ جاتا ہے اور زیادہ کیمیائی تعامل کی وجہ سے اجزائے خوراک کی دستیابی کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے زمین کی اصلاح کے بعد اگر پودوں کو پوری خوراک میسرآجائے تو پودوں میں زیادہ قوتِ مدافعت پیدا ہو جاتی ہے۔
کاشتکاروں کے اس تناظر میں یہ خیال کہ کلر اٹھی زمینوں میں کھادوں کا استعمال ضروری نہیں ہے۔ کیمیائی کھادیں ان نامساعد حالات میں پودوں کی بہتر نشوونما کو یقینی بناتی ہیں۔ خصوصاً پوٹاش کا استعمال پودوں پر کلر اٹھے پن کے برے اثرات کو کم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔ کلر اٹھے رقبے پر کاشتہ فصلوں میں عموماً پوٹاش اور فاسفورسی کھادوں کا استعمال بوائی کے وقت جبکہ نائٹروجنی کھادوں کا استعمال زیادہ اقسام میں کریں۔ اس طرح خوراکی اجزاء کی افادیت بہتر ممکن ہو سکے گی۔
کاشتکار حضرات ہ ان ہدایات پر عمل کر کے اپنی کلر اٹھی زمینوں کی اصلاح کو ممکن بنا کر فصلوں کی بھر پور اور منافع بخش پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم ملک میں وسیع کلر زدہ رقبہ کو نمکین زراعت کے ذریعے استعمال میں لا کر بالمعموم ملک کی بڑھتی خوراک کی ضروریات کو پورا جبکہ با لخصوص کاشتکار کی فی ایکڑ اوسط پیداوار اور آمدن میں اضافہ یقینی بنا سکتے ہیں

جواب دیجئے